رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں اس مجوزہ آئینی بل کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی تحریک مزاحمت کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیلی فوج، پولیس، یہودی آباد کاروں اور عام تنصیبات پرحملے کرنے والے فلسطینیوں کے لیے طویل قید کے ساتھ ساتھ سزائے موت بھی منظور کرے تاکہ فلسطینیوں کو تحریک مزاحمت کی پاداش میں پھانسی کی سزائیں بھی دی جاسکیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک اس قانون کی حمایت میں حکمراں جماعت ’’لیکوڈ‘‘ اس کی حامی ’’اسرائیل بیتنا‘‘ اور ’’جیوش ہوم‘‘ جیسی سرکردہ جماعتوں کے ارکان نے حمایت کی ہے اور بل کی منظوری کے لیے اس پردستخط بھی کردیے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی گذشتہ وزارت عظمیٰ کی مدت کے دوران بھی اسی نوعیت کے ایک بل پربحث کی گئی تھی تاہم بعد ازاں اس بل کی منظوری نہیں دی جاسکی تھی۔
مجوزہ آئینی بل میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے اسرائیلی تنصیبات پرحملوں سے متعلق تمام کیسز کواسرائیل کی فوج داری عدالتوں میں دائر کیا جائے اور فوجی عدالتوں ہی کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کے مطابق فلسطینی مزاحمت کاروں کو سزائیں دی جائیں۔
مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کو پھانسی کی سزائیں دینے کے لیے تمام ججوں کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ کیس کی سماعت کرنے والے ججوں کی اکثریت اگر کسی فلسطینی کو پھانسی کی سزا تجویز کرے توحکومت اور انتظامیہ کو اس سزا پرعمل درآمد کی پابندی کرنا چاہیے۔
مسودہ قانون میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ اگر کوئی عدالت کسی فلسطینی مزاحمت کار کو موت کی سزا سنادے تو کسی دوسری عدالت کو اس سزا کو چیلنج کرنے کا اختیار نہ ہوبلکہ اس سزا کو حتمی سمجھا جائے۔