فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے 8 جولائی کو کیے گئے حملے نے جہاں میدان جنگ میں صہیونی فوج کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے وہیں جنگ کے حوالے سے فوج کے تیار کردہ پلان کی تفصیلات کا وقت سے پہلا افشاء ہونا خود فوج کے ایک بڑی پریشانی کا موجب ٹھہرا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کے فوجی ادارے میں ان دنوں اعلیٰ سطح پر یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا غزہ کی پٹی حملے 2 دن قبل فوج کے پلان کی اہم اور حساس نوعیت کی جزیات سوشل میڈیا تک کیسے پہنچیں اور ان کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ ایک ایسے سوال ہے جس نے اسرائیلی فوج کی ہائی کمان میں جہاں اختلافات پیدا کیے ہیں وہیں فوج میں بد اعتمادی کی فضاء کو جنم دیا ہے۔
فوجی حلقوں میں وقت سے قبل جن اہم رازوں کے افشاء ہونے کی بحث چل رہی ہے۔ وہ جنگ کے بارے میں فوج کا آپریشن کےحوالے سے نام ہے۔ صہیونی فوج نے "حفاظتی کنارا” کے نام سے غزہ کی پٹی میں آپریشن کا آغاز کیا۔ سرکاری طور پر آپریشن کے نام کے بارے میں معلومات آنے سے 3 دن قبل سوشل میڈیا بالخصوص "واٹس اپ” پر یہ خبر چل پڑی کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر حملے کے لیے "آپریشن حفاظتی کنارا” کی اصطلاح کا انتخاب کیا گیا ہے۔
آپریشن کا نام فوج کے کسی ترجمان کی زبان سے سامنے آنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ فوجی ترجمان کے بیان سے قبل آپریشن کا نام سوشل میڈیا پر آ چکا تھا۔ آپریشن کے نام کا افشاء فوج کے لیے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں۔ غزہ جنگ کےحوالے سے فوج کی یہ پہلی شکست تھی جس نے نفسیاتی طور پر فوج کا مورال گرا دیا۔
اس کے علاوہ ایک دوسرا اسکینڈل جس میں فوج کو بدنامی کا منہ دیکھنا پڑا وہ غزہ جنگ کے اختتام پر غزہ کی پٹی میں داخل ہوئی فوج کی واپسی کےبارے میں تھا۔ اسرائیلی کابینہ میں فیصلہ ہوا کہ جنگ بندی کے بعد فوج کو جلد از جلد غزہ کی پٹی سے نکالا جائے گا۔ اسرائیل کے کسی سرکاری ادارے کی جانب سے اس کی وضاحت سے قبل میڈیا پر یہ خبر چل پڑی کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے فوج نکالنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔
اس انکشاف کے بعد اسرائیلی کابینہ میں شامل داخلی سلامتی کے وزیر یتزحاق اھرونو فیٹچ یہ کہتے پائے گئے کہ کابینہ کے ان لوگوں کو سامنے لایا جائے جو اجلاس کی خفیہ کارروائی کو میڈیا تک پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔
اس حوالے سے ایک تیسرے اہم راز کے افشاء کیے جانے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ غزہ کی پٹی پر حملے کو کوئی 20 دن ہوئے تھے۔ ابھی تک اسرائیل فضائی حملے ہی کر رہا تھا۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی کابینہ کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں فوجی عہدیدار اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی شریک تھیں۔ اجلاس میں غزہ کی پٹی میں بری فوج کی کارروائی پر غور کیا گیا۔ تاہم اجلاس کو بتایا گیا کہ زمینی کارروائی نہایت تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے مضبوط گڑھ موجود ہیں جو کسی بھی گوریلا کارروائی میں فوج کو بھاری جانی نقصان سے دوچار کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی صیغہ راز میں نہ رہ سکی اور چند گھنٹوں کے بعد میڈیا تک پہنچ گئی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل کے فوجی ادارے میں ان دنوں اعلیٰ سطح پر یہ بحث چل رہی ہے کہ آیا غزہ کی پٹی حملے 2 دن قبل فوج کے پلان کی اہم اور حساس نوعیت کی جزیات سوشل میڈیا تک کیسے پہنچیں اور ان کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ ایک ایسے سوال ہے جس نے اسرائیلی فوج کی ہائی کمان میں جہاں اختلافات پیدا کیے ہیں وہیں فوج میں بد اعتمادی کی فضاء کو جنم دیا ہے۔
فوجی حلقوں میں وقت سے قبل جن اہم رازوں کے افشاء ہونے کی بحث چل رہی ہے۔ وہ جنگ کے بارے میں فوج کا آپریشن کےحوالے سے نام ہے۔ صہیونی فوج نے "حفاظتی کنارا” کے نام سے غزہ کی پٹی میں آپریشن کا آغاز کیا۔ سرکاری طور پر آپریشن کے نام کے بارے میں معلومات آنے سے 3 دن قبل سوشل میڈیا بالخصوص "واٹس اپ” پر یہ خبر چل پڑی کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی پر حملے کے لیے "آپریشن حفاظتی کنارا” کی اصطلاح کا انتخاب کیا گیا ہے۔
آپریشن کا نام فوج کے کسی ترجمان کی زبان سے سامنے آنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ فوجی ترجمان کے بیان سے قبل آپریشن کا نام سوشل میڈیا پر آ چکا تھا۔ آپریشن کے نام کا افشاء فوج کے لیے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں۔ غزہ جنگ کےحوالے سے فوج کی یہ پہلی شکست تھی جس نے نفسیاتی طور پر فوج کا مورال گرا دیا۔
اس کے علاوہ ایک دوسرا اسکینڈل جس میں فوج کو بدنامی کا منہ دیکھنا پڑا وہ غزہ جنگ کے اختتام پر غزہ کی پٹی میں داخل ہوئی فوج کی واپسی کےبارے میں تھا۔ اسرائیلی کابینہ میں فیصلہ ہوا کہ جنگ بندی کے بعد فوج کو جلد از جلد غزہ کی پٹی سے نکالا جائے گا۔ اسرائیل کے کسی سرکاری ادارے کی جانب سے اس کی وضاحت سے قبل میڈیا پر یہ خبر چل پڑی کہ اسرائیل نے غزہ کی پٹی سے فوج نکالنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔
اس انکشاف کے بعد اسرائیلی کابینہ میں شامل داخلی سلامتی کے وزیر یتزحاق اھرونو فیٹچ یہ کہتے پائے گئے کہ کابینہ کے ان لوگوں کو سامنے لایا جائے جو اجلاس کی خفیہ کارروائی کو میڈیا تک پہنچانے کا باعث بن رہے ہیں۔
اس حوالے سے ایک تیسرے اہم راز کے افشاء کیے جانے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ غزہ کی پٹی پر حملے کو کوئی 20 دن ہوئے تھے۔ ابھی تک اسرائیل فضائی حملے ہی کر رہا تھا۔ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی کابینہ کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں فوجی عہدیدار اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی شریک تھیں۔ اجلاس میں غزہ کی پٹی میں بری فوج کی کارروائی پر غور کیا گیا۔ تاہم اجلاس کو بتایا گیا کہ زمینی کارروائی نہایت تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے مضبوط گڑھ موجود ہیں جو کسی بھی گوریلا کارروائی میں فوج کو بھاری جانی نقصان سے دوچار کر سکتے ہیں۔ یہ بات بھی صیغہ راز میں نہ رہ سکی اور چند گھنٹوں کے بعد میڈیا تک پہنچ گئی۔