اس ضمن میں اسرائیل کے ایک اہم فوجی جنرل نے حال ہی میں ایک نیوز کانفرنس کی جس میں صرف غیرملکی ذرائع ابلاغ کے مندوبین کو مدعو کیا گیا تھا۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ نے صہیونی جنرل کی پریس کانفرنس کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے اور کہا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں اپنی ناکامی اور حماس کی کامیابی کی معترف ہے۔
اسرائیلی محکمہ دفاع کےہیڈ کواٹر میں ہونے والی اس نیوز کانفرنس میں فوجی عہدیدار نے غزہ جنگ کے حوالے سے کئی اہم انکشافات اور اعترافات کیے ہیں۔ سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر امریکی اخبار نے اسرائیلی فوجی عہدیدار کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے تاہم رپورٹ میں فوجی جنرل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کو جس نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا وہ ناقابل یقین ہے۔ اسرائیلی فوج کی انجینیرنگ کور نے غزہ کی پٹی میں حماس کے راکٹ لانچنگ کے اڈوں، خفیہ زیرزمین سرنگوں اور جنگ میں مارے جانے والے شہریوں کے بارے میں اہم انکشافات کیے ہیں۔
راکٹ لانچنگ پیڈ
اسرائیلی جنرل نے بتایا کہ حماس نے پہلی بار ایسے خطرناک نوعیت کے راکٹ استعمال کیےہیں، جن کی ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انہوں نے غزہ کی پٹی میں حماس کے راکٹوں اور انہیں داغنے کےلیے استعمال ہونے والے اڈوں کے بارے میں بھی اعتراف کیا کہ فوج ان راکٹ لانچنگ پیڈ سے لاعلم تھی۔
امریکی اخبار نے سابق وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے ایک بیان کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں انہوں نے حماس کے راکٹ حملوں کا تذکرہ نہ کرنے پر مغربی میڈیا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہیلری کلٹن کو فلسطینی مزاحمت کاروں کے راکٹوں کی طاقت اور جنگی استعداد کا بھرپور اندازہ تھا۔
اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیلی فوجی عہدیدار نے نیوز کانفرنس میں اعتراف کیا کہ فوجی کارروائیوں میں غزہ کی پٹی میں مارے جانے والے 2127 افراد عام شہری تھے۔ یہ تعداد اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعدادو شمار کے کافی قریب ہے۔
فوجی جنرل کا کہنا تھا کہ فوج نے غزہ کی پٹی میں حماس کو کاری ضرب لگائی ہے مگر تنظیم کے عسکری صلاحیت کو تباہ کرنے اور کمرتوڑنے کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ غزہ کی پٹی میں حماس کے 16 ہزار اور اسلامی جہاد کے 5200 تربیت یافتہ جنگجو موجود ہیں
لیکن اسرائیلی حملوں میں غزہ کی پٹی میں کل مارے جانے والے افراد میں صرف 05 فی صد مزاحمت کار شامل ہیں باقی تمام عام شہری ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی بتائی گئی ہے۔
بحری کمانڈوز کی تربیت
امریکی اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج حماس کی جس حیران کن دفاعی صلاحیت سے متاثر ہوئی وہ تنظیم کے بحری کمانڈوز کی تربیت ہے۔ اس سے قبل اسرائیلی فوج کو فلسطینی مزاحمت کاروں کی زیرسمندر کارروائیوں کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں تھی اور نہ ہی وہ ذہنی طور پر اس کے لیے تیار تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات جس نے اسرائیلی فوج کو چوکنا کیا وہ مزاحمت کاروں کے بغیر پائلٹ کے ڈرون طیارے ہیں۔ زیرِ زمین کئی کئی کلومیٹر طویل سرنگیں بھی فوج کے اندازوں سےکہیں زیادہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حماس نے جنگ کے دوران کم سے کم 10 ہزار راکٹ اسرائیل پر داغے۔اب بھی حماس کے پاس 3 ہزار راکٹ اور لاکھوں کی تعداد میں "ہاون” راکٹ موجود ہیں۔ اسرائیل کے لیے پریشانی کی ایک بات حماس کی عوامی مقبولیت ہے۔ غزہ جنگ سے قبل حماس کی مقبولیت نہ ہونے کے برابر تھی لیکن جنگ کے بعد سامنے آنے والے رائے عامہ کے جائزوں میں بتایا گیا ہے کہ حماس اس وقت فلسطین کی سب سے مقبول ترین جماعت بن چکی ہے اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس اور ان کی جماعت الفتح کی عوامی مقبولیت کا گراف صرف کو چھونے لگا ہے۔ اس حوالے سے برطانوی اخبار ٹائمز کی رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی عوام کی اکثریت محمود عباس کے بجائے حماس کے اسماعیل ھنیہ کو اپنا لیڈر تسلیم کرنے لگی ہے۔
غیرمعمولی تباہی
اخبار "کریسچن سائنس مانیٹر” کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان حالیہ اکاون روزہ جنگ اب تک کی فلسطین اسرائیل کی بدترین جنگ ہے جس میں بڑے پیمانے پر غزہ میں تباہی پھیلی ہے۔ اس جنگ کے نتائج میں اہم بات یہ ہے کہ فلسطینی غزہ کی پٹی کی 8 سال سے جاری ناکہ بندی ختم کرانے میں کامیاب رہے ہیں تاہم جنگ بندی کے بعد دو ہفتے گذرگئے ہیں لیکن فلسطینیوں کو ناکہ بندی
ختم کرانے کا خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا ہے۔
البتہ غزہ کے ماہی گیر فائدے میں رہے ہیں۔ وہ سمندر میں کئی کلو میٹر دور تک مچھلیوں کا شکار کرنے کی پوزیشن میں ہیں اور اسرائیلی فوج پیچھے ہٹ گئی ہے۔
خیال رہے کہ عالمی ابلاغی اداروں کی جانب سے غزہ کی پٹی کی ما بعد جنگ صورت حال کے بارے میں یہ رپورٹس ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آنے لگی ہیں جب حماس نے پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط انداز میں مسلح جدو جہد کے عزم پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حماس کے سابق وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کا کہنا ہے کہ "مسلح مزاحمت” ایک مقدس حق ہے اور اسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا ہے۔