اسرائیل کے عبرانی نیوز ویب پورٹل’’وللا‘‘ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فلسطین میں اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم کی باضابطہ تحقیقات کا سلسلہ شروع ہوگیا تواس کے نتیجے میں نہ تو فوج بچے گی، نہ خفیہ ادارے اور نہ ہی سیاست دان اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ عالمی قوانین کی لپیٹ میں اسرائیل کی عسکری اورسیاسی قیادت خاص طوپر لپیٹ میں آسکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیردفاع موشے یعلون گذشتہ برس غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے حملوں کے باعث جنگی جرائم کی تحقیقات کی زد میں آسکتے ہیں کیونکہ ان کے حکم پر فوج نے جنوبی غزہ کے علاقے رفح میں نہتے فلسطینیوں کے قتل عام کا حکم جاری کیا تھا۔ یعلون نے یہ حکم اس وقت جاری کیا تھا جب فلسطینی مزاحمت کاروں نے رفح میں ایک صیہونی فوجی کو یرغمال بنا لیا تھا۔
بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاست دان یہ نہ سمجھیں کہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے دائرے میں صرف فوجی قیادت آئے گی اور سیاست دان بچ جائیں گے۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی تحقیقات میں صہیونی سیاست دانوں کو بھی بازپرس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
صہیونی تجزیہ نگار ڈانی عیفرونی کا کہنا ہےکہ بین الاقوامی فوج داری عدالت تحقیقات کے دوران اسرائیلی سیاست دانوں اور حکومتی شخصیات سے بھی پوچھ تاچھ کرے گی کیونکہ بین جنگی جرائم میں کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
خیال رہے کہ ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف کی جانب سے جمعہ کے روز جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عدالت فلسطین میں اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا ابتدائی جائزہ لے رہی ہے جس کی بنیاد پر باضابطہ تحقیقات شروع کی جائیں گی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین