اسلامی تحریک مزاحمت”حماس” نے اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کے دوران صہیونی فوجیوں کی گولیوں کی بوچھاڑ کے جواب میں پتھر پھینکنے کی 20 سال قید کی سزا منظور کیے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قانون کو صہیونی ریاست کے مکروہ چہرے اور مجرمانہ پالیسی کا عکاس قرار دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان سامی ابو زھری نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی ریاست کا فلسطینیوں کے حوالے سے منظور کردہ کوئی بھی قانون مجرمانہ پالیسی اور نسلی امتیاز کا مظہر ہوتا ہے۔ سنگ باری کی سزا سے متعلق سنگین قانون بھی اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف نفرت، نسل پرستی اور مجرمانہ پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینی شہریوں کو سنگین نوعیت کی سزائوں سے خوف دلا کر ان کے جذبہ آزادی کو کچلنا چاہتا ہے مگر صہیونی ریاست یہ بھول جائے کہ فلسطینی اس نوعیت کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے خوف زدہ ہونے والے ہیں۔ ہم آزادی کی تحریک پورے قومی جذبے کے ساتھ جاری رکھیں گے اور ہرطرح کی قربانیاں پیش کرتے رہیں گے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز اسرائیلی کنیسٹ میں پیش کیے گئے ایک مسودہ قانون پر رائے شماری کی گئی۔ اس قانون کے تحت احتجاجی مظاہروں کے دوران یہودی فوجیوں پر سنگ باری کرنے والے فلسطینیوں کو کم سے کم 20 سال قید کی سزا دی جاسکے گی۔ قانون کی حمایت میں 69 ارکان کنیسٹ نے ووٹ ڈالا جب کہ 17 نے اس کی مخالفت کی۔
اگرکسی فلسطینی نے غیرارادی طورپر پتھر پھینکے چاہے اس کے نتیجے میں کوئی نقصان ہوا یا نہیں اسے پانچ سے دس سال قید کی سزا ہوگی اور ارادی طورپر سنگ باری کرنے کے الزام میں گرفتار فلسطینیوں کوبیس سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین