مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک فوٹیج میں کہا گیا ہے کہ القسام بریگیڈ کے جانثار چاہتے تو صہیونی فوجیوں پر ہاون راکٹوں کی بارش کرسکتے تھے لیکن خطرہ تھا کہ راکٹ حملوں میں بڑی تعداد میں سولین بالخصوص بچے نشانہ بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیل نے دانستہ طورپر سولین پر بم گرا کر اپنی انسانیت دشمنی اور بربریت کا ثبوت دیا تھا۔
خیال رہے کہ پچھلے سال غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں 2200 فلسطینی شہید اور 11000 سے زاید زخمی ہوگئے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اسرائیلی بمباری میں شہید اور زخمی ہونے والوں میں 85 فی صد عام شہر بالخصوص خواتین، بچے اورمعمر افراد شامل تھے۔ جبکہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں میں 64 اسرائیلی فوجی اور چار عام اسرائیلی شہری ہلاک ہوگئے تھے۔
دو طرفہ حملوں کے تقابل سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیل نے دانستہ طورپر فلسطین کے عام شہریوں کو نشانہ بنایا تھا۔
القسام بریگیڈ کی جانب سے جاری تصویری فوٹیج میں بتایا گیا ہے کہ مجاھدین چاہتے تو اسرائیلی فوجی کیمپوں پر راکٹوں کی بارش کردیتے مگر کیمپوں کے قریب یہودی آبادیاں ہونے سے خدشہ تھا کہ راکٹ حملوں میں یہودیوں کے بچے اور عام شہری مارے جائیں گے۔ فوٹیج میں اسرائیلی جنگی طیاروں اور بری فوج کی جانب سے ٹینکوں کی مدد کی گئی کارپٹ بمباری کے مناظربھی دکھائے گئے ہیں۔
یہ فوٹیج سماجی رابطے کی ویب سائیٹ فیس بک کے علاوہ ’’ٹیوٹر‘‘ پر بھی پوسٹ کی گئی ہے۔ ٹیوٹر پرحماس کی حمایت میں جاری ’’ #AksHamas ‘‘ کے عنوان سے ایک ہیش ٹیگ بنایا گیا ہے جس کے ذریعے عالمی برادری کو حماس کے موقف سے آگاہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حماس کے مرکزی رہ نمائوں نے اس مہم میں حصہ لیتے ہوئے صارفین کے سیکڑوں سوالوں کے جواب دیے ہیں اور انہیں بتایا ہے کہ حماس دہشت گرد تنظیم نہیں جو بے گناہوں کی گلے کاٹتی پھرے۔ حماس صرف فلسطین کی آزادی کے لیے آئینی جدو جہد کررہی ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین