فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق غزہ پٹی میں حماس کی قیادت میں شامل ذرائع نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ” کو بتایا ہے کہ مجلسِ شوری تنظیم کے نئے دستاویز کو حتمی شکل دے رہی ہے تاکہ خود تنظیم کی تعریف کا از سرِ نو تعین کیا جا سکے۔ ذرائع کے مطابق عنقریب جاری کی جانے والی دستاویز کے ذریعے "غیر فطری اندازِ فکر” اور "جہادی سلفی غُلو” کو حماس سے دور کر دیا جائے گا۔
ذرائع نے باور کرایا کہ سیاسی دستاویز میں جس کا مسودہ بیرون ملک حماس قیادت نے تیار کیا ہے اور وہ اس وقت مجلس شوری کی سطح پر غزہ پٹی میں زیرِ بحث ہے. اس میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینے پر زور دیتے ہوئے اس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ ” غُلو کسی طور بھی دینِ حنیف اسلام کی خصوصیات میں سے نہیں ہے۔ وہ دین جس کے ساتھ مذہبی رواداری وابستہ ہے”۔ دستاویز کے مطابق "حماس ایک سُنّی تنظیم ہے اور اسلام اس کا راستہ ہے”۔
مسلک کے مذہبی اور سیاسی رخ کے حوالے سے اختلاف
حماس کی قیادت کے ذرائع نے واضح کیا ہے کہ غزہ میں تنظیم کی مجلسِ شوری کے فیصلے میں اس موضوع کی جانب کسی بھی اشارے سے گریز کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ حماس کے مفادات اور ایران اور حزب اللہ کے ساتھ اس کے تعلقات بالخصوص مالی امداد اور عسکری تربیت کا حصول ہے۔ علاوہ ازیں خطے میں فرقہ واریت اور شیعہ سنی کشیدگی میں اضافے سے گریز کرنا ہے۔
غزہ میں حماس کی ہمنوا ویب سائٹ کے مطابق نئے سیاسی دستاویز میں زیرِ بحث اہم ترین نکات میں تنظیم کے منشور میں پہلے باب کی دوسری شق سے گریز ہے جس میں کہا گیا ہے کہ حماس، اسلام پسند تنظیم الاخوان المسلمون کا ایک دھڑا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ حماس اس ‘بوجھ’ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے کہ اسے عالمی تنظیم الاخوان المسلمون کا دھڑا قرار دیا جائے۔ اس طرح حماس کے مصر کے ساتھ تعلقات کا ایک نیا باب کھل سکتا ہے اور تشدد سے اجتناب کے ذریعے یورپ اور ترکی کی سرپرستی میں قابض اسرائیلی حکام کے ساتھ بالواسطہ سیاسی مکالمے کے لیے راہ ہموار ہو سکتی ہے۔