حماس کے پارلیمانی لیڈر اور جماعت کے ترجمان ڈاکٹر صلاح الدین بردویل نے کہا کہ ہمیں ذرائع سے یہ اطلاع ملی ہے کہ امریکی وزیرخارجہ اسرائیل کے ساتھ مل کر فلسطینی اتھارٹی کو بلیک میل کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے بنیادی اصولوں کو پامال کرنے، بیت المقدس اور فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق ہمارے دیرینہ مطالبات کو دبانے کی سازش کر رہے ہیں۔ فلسطینی عوام نہ تو ایسے مذاکرات قبول کریں گے اور نہ ہی دشمن کی اس طرح کی چالوں کو کامیاب ہونے دیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں حماس رہ نما نے کہا کہ ہم یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ امریکی وزیرخارجہ کن بنیادوں پرفلسطین۔ اسرائیل امن مذاکرات آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ مذاکرات دراصل ایک سازش اور ڈھونگ ہے جس کا مقصد چھ ملین فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو ختم کرتے ہوئے انہیں مختلف عرب ملکوں میں مستقل طور پر آباد کرنا ہے۔
ڈاکٹر بردویل نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ کی اسکیم کا دوسرا حصہ بیت المقدس ہے۔ اسرائیل بیت المقدس کو مستقل طور پر اسرائیل کے قبضے میں رکھنا چاہتا ہے۔ صرف نمائش کے طور پر بیت المقدس کے بعض مقدس مقامات کی نگرانی کی ذمہ داری فلسطینیوں کے بجائے اردنی اداروں کو سونپے جانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اسی خطرناک منصوبے اور اسکیم کے تحت سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں سے فلسطینیوں کا مزید انخلاء، جبری گھر بدری اور یہودی آباد کاری شامل ہیں۔
حماس کے ترجمان نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے مطالبہ کیا کہ وہ امریکی ۔ صہیونی گٹھ جوڑ میں آنے کے بجائے مسئلہ فلسطین کو سرد خانے میں حصہ بننے سے کھل کر انکار کردیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین کی آزادی اور سلب شدہ حقوق کے حصول کا واحد ذریعہ مسلح جدوجہد آزادی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ ادراک کرلینا چاہیے کہ سابق فلسطینی لیڈر یاسرعرفات مرحوم نے بھی اسرائیل سے ‘اوسلو’ امن معاہدہ کرکے تاریخی غلطی تھی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین