اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے مصر اور اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی کے معاشی محاصرے اور شہرکی ناکہ بندی کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر معاشی پابندیاں سنگین نوعیت کا جرم اور معصوم شہریوں پر مظالم ڈھانے کےمترادف ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے کہا کہ اسرائیل نے پچھلے آٹھ سال سے غزہ کی پٹی کی گیس، بجلی، ایندھن اور بنیادی ضرورت کی ہر چیز پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
محصورین غزہ پر پابندیوں کے نفاذ میں اب صہیونی حکومت کے ساتھ مصر بھی شامل ہو گیا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں ادویہ کی شدید قلت ہے اور ہزاروں مریض بیرون ملک علاج کے لیے سفرکرنا چاہتے ہیں لیکن مصر نے فلسطینیوں کے بیرون ملک سفر پر پابندیاں عائد کر کے سنگین نوعیت کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ پر پابندیاں انسانیت کے خلاف سنگین جرم ہے اور دنیا کا کوئی قانون اور ضابطہ اس کا جواز فراہم نہیں کر سکتا ہے۔
فوزی برھوم نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے عوام کو بھوک اور ننگ میں مبتلا کرنا صہیونیوں کا شیوہ تو ہو سکتا ہے لیکن مصر سے اس طرح کے مظالم کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں پابندیوں کے باعث ہونے والی اموات کی ذمہ داری مصر اور صہیونی ریاست دونوں پرعائد ہوتی ہے۔ معاشی محاصرہ سنگین جنگی جرم ہے وہ چاہے جس کی جانب سے بھی کیا جائے۔
حماس کے ترجمان نے غزہ کی پٹی میں خوراک اور ادویہ کی بڑھتی قلت اور اس کے منفی اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے عالم اسلام، عرب ممالک اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈیڑھ ملین سے زائد آبادی کو محاصرے سے نکالنے میں مدد فراہم کریں۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین