مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق خالد مشعل نے ایک اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا کہ غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے حوالے سے فلسطینی حکومت سے کوتاہی ہوئی ہے۔ حکومت کو اپنی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے تعمیرنو کا کام جنگی بنیادوں پر شروع کرنا چاہیے۔
خالد مشعل نے رواں سال جولائی اور اگست میں اسرائیلی فوج کے غزہ کی پٹی پر مسلط حملے کے جواب میں فلسطینی مجاھدین کی جوابی کارروائی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجاھدین نے غزہ جنگ میں جس بہادری، جرات ، جانثاری اور جدید وسائل جنگ کا استعمال کیا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔
اسی سوال کو آگے بڑھاتے ہوئے خالد مشعل نے کہا کہ جنگ کے بعد غزہ کی پٹی کی جنگی بنیادوں پر تعمیر ہونا چاہیے تھی مگر فلسطینی حکومت اور رام اللہ اتھارٹی نے اس باب میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ غزہ کی پٹی میں تعمیر نو کی مسلسل رٹ لگائے ہوئے تھے انہوں نے عملا ایک ذرے جتنا کام نہیں کیا۔ عالمی برادری بھی غزہ کی پٹی کی تعمیر نوکی تاخیر کی ذمہ دار ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ سے تباہ حال ہے۔ تعمیر کا کام کسی ایک فرد، جماعت یا ادارے کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ میں جہاں فلسطینی اتھارٹی، فلسطینی ریاست کے تمام اداروں اور قومی حکومت سے غزہ کی تعمیر نو کے لیے موثراقدامات کا مطالبہ کرتا ہوں وہیں فلسطینی عوام اورعالمی برادری سے بھی پرزور اپیل کرتا ہوں کہ وہ غزہ کی تعمیر نو کے حوالے سے ہرممکن مدد فراہم کریں۔
حماس رہ نما نے کہا کہ غزہ کی پٹی کی تعمیر میں مزید کوتاہی اور ٖغفلت برداشت نہیں کی جاسکتی۔ اہل غزہ کو بھی ایک بندرگاہ ، ایک ہوائی اڈے کے قیام سمیت سرچھپانے کے لیے مکانات کی ضرورت ہے۔ حماس کے سامنے غزہ کی تعمیر نو اور محاصرہ توڑنے کے لیے تمام آپشن کھلے ہیں۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ حماس قومی مفادات پر سودا نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حماس نے آج تک کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ تمام عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ عالمی برادری سے دوستانہ تعلقات کے قیام کی مساعی جاری رکھی ہیں۔
خالد مشعل نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کا خطہ جن جوہری تبدیلیوں سے گذر رہا ہے اس نے مسئلہ فلسطین کی ضرورت کو مزید دوچند کردیا ہے۔ خطے میں طاقت کے توازن تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایسے میں فلسطینیوں کو آزادی کی منزل سے ہم کنار کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔
فلسطینی سیاسی جماعتوں بالخصوص حماس اور تحریک فتح کے درمیان پائے جانے والے اختلافاتات اور قومی مفاہمتی مساعی کے مستقبل پربات کرتےہوئے خالد مشعل نے کہا کہ قومی مفادات کے حوالے سے حماس اورتحریک فتح میں جوہری اختلاف نہیں بلکہ طریقہ کار میں اختلاف ہے۔
حماس ایک جامع مزاحمتی اور سیاسی پروگرام رکھتی ہے جب کہ فتح کی قیادت مسلح مزاحمت کی حامی نہیں ہے۔ اس کے باوجود دونوں جماعتیں ایک مخلوط قومی حکومت کا حصہ ہیں۔ قومی مفاہمت کی راہ میں حائل رکاوٹیں جلد دور کردی جائیں گی۔
ایران اور مصرے سے تعلقات
انٹرویو میں خالد مشعل سے حماس کے وفد کے دورہ ایران کے بارے میں پوچھا گیا جو حال ہی میں کیا گیا ہے۔ اس پر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے افسوس کی بات یہ ہے کہ حماس اور ایران کے درمیان تعلقات کو میڈیا میں منفی رنگ دیا جاتا رہا ہے۔ حماس اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اس دوران بعض مواقع ایسے پیدا ہوئے جب حماس اور تہران کے درمیان تعلقات کمزور ہوئے مگر یہ کسی بھی مرحلے پر ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ہمیں ایران کی جانب سے طویل عرصے تک فلسطینی تحریک آزادی کے لیے ہرممکن مدد ملتی رہی ہے۔ حماس اور ایران کے درمیان تعلقات میں دراڑ شام کے معاملے پر پڑی۔ لیکن اس کے باوجود ہم نے دوبارہ سے اپنے تعلقات ماضی کی طرح مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حماس کےوفد کا دورہ ایران بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
مصر اور حماس کے درمیان کشیدگی کے بارے میں خالد مشعل نے کہا کہ مصر ہمارے دلوں میں بستا ہے اور ایک دن بھی اسے فراموش نہیں کرسکتے۔ حماس کی پوری خواہش ہے کہ وہ مصر کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم اور مضبوط تر بنائے لیکن ہمیں مصر کی جانب سے بلا جواز الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ مصرکی اندرونی کشمکش میں حماس کو مداخلت کا ملزم قراردیا گیا جس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
تمام تر اختلافات کے باوجود حماس مصر کی قومی سلامتی کی حامی ہے۔ حماس پر مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت بلا جواز ہے۔ خالد مشعل نے فلسطینی سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت کے لیے مصر کی مساعی کو سراہا اور کہا کہ قاہرہ نے اختلافات کے باوجود فلسطینی دھڑوں میں مفاہمت کرانے میں بھرپور مدد کی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین