مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق خالد مشعل نے ان خیالات کا اظہار برطانوی نشریاتی ادارے’’بی بی سی ‘‘ریڈیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل میں 17 مارچ کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بنجمن نیتن یاھو کی انتہا پسند جماعت کی کامیابی سے مشرق وسطیٰ میں امن کوششوں کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حماس کا اسرائیل پر چڑھائی کا کوئی ارادہ نہیں لیکن جنگ مسلط کی گئی تو حماس قوم کا پوری قوت سے دفاع کرے گی۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل کا کہنا تھا کہ جب تک فلسطین میں اسرائیل کا ناجائز قبضہ، جارحیت، قتل عام، جنگ اور وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں اس وقت تک فلسطینی مسلح مزاحمت بھی جاری رکھیں گے۔
خالد مشعل نے کہا کہ ان کی جماعت فلسطینیوں کے حوالے سے بین الاقوامی قانون کے تحت فیصلہ کرانے کی خواہاں ہے مگرعالمی برادری کو فلسطینیوں کی مزاحمت کے سوا اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل میں نیتن یاھو کی انتخابات میں کامیابی کے بعد اب مشرق وسطیٰ میں دیر پاامن کے قیام کے امکانات ختم ہوگئے ہیں۔ اسرائیل میں انتہا پسندوں کی کامیابی سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ صہیونی ریاست میں انتہا پسندانہ سوچ غالب ہے۔
انہوں نے نیتن یاھو کی جانب سے جاری کردہ اس بیان کو بھی مسترد کردیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حماس بھی دولت اسلامی’داعش‘ ہی کی طرح کی ایک انتہا پسند تنظیم ہے جس کی سرگرمیاں امن دشمنی پرمبنی ہیں۔ خالد مشعل نے کہا کہ حماس صرف فلسطینی قوم کے دفاع کے لیے لڑ رہی ہے۔ ہم بے گناہوں کے گلے نہیں کاٹتے بلکہ اپنے جائزحقوق کے حصول کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ہمارے مطالبات کو عالمی سطح پر تسلیم بھی کیاجا چکا ہے۔
خالد مشعل نے کہا کہ امن ہی ہم سب کی خواہش ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس بھی وہ سب کچھ ہو جو ہمارے دشمن کے پاس ہے۔ خطے میں دیر پا اور منصفانہ قیام امن اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام بند نہیں کردیا جاتا۔
خالد مشعل نے اپنے انٹرویو میں عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کھل کراعلان کرے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اسرائیل کو اییک ’’یہودی ریاست‘‘ کے طورپر کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین