مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اپنے ایک بیان میں حماس رہ نما نے کہا کہ ایسے لگ رہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو ایک ڈیل پر دستخط کی تیاری کر رہے ہیں، جسے حتمی منظوری کے لیے اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] میں پیش کیا جائے گا۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اس معاہدےکی ذمہ داری کون قبول کرے گا۔ کیا فلسطینی صدر محمود عباس فلسطینیوں کے حقوق کے غاصبانہ قبضے کا کوئی دوسرا معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات سے متعلق مذاکرات کے لیے نمائندہ ادارہ تنظیم برائے آزادی فلسطین کی نیشنل کونسل ہے، لیکن یہ ادارہ گہری نیند میں سو رہا ہے۔ اس ادارے کی عدم موجودگی اور غیرفعالیت کے نتیجے میں فلسطینی اتھارٹی نے خود کو فیصلہ کن حیثیت دلوا دی ہے حالانکہ فلسطینیوں کے دیرینہ مطالبات کے بارے میں کوئی بھی سمجھوتہ یا معاہدہ صرف تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکٹو کونسل کرسکتی ہے۔
ابو مرزوق کا کہنا تھاکہ تنظیم آزادی فلسطین کو فعال بنانے کے لیے حماس اور دیگر جماعتوں کی جانب سے کئی بار تجاویز، سفارشات اور مطالبات کیے جا چکے ہیں لیکن ان پرکوئی عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا حکمراں ٹولہ اس اہم نمائندہ قومی ادارے کو دانستہ طورپر نظرانداز کرتے ہوئے اسے اہم قومی فیصلوں میں بائی پاس کررہا ہے۔
ابو مرزوق کا کہنا تھا کہ فلسطین میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات بھی قومی مفاہمت کے تحت نہیں ہوئے ہیں۔ اگر فلسطین کے اندرونی معاملات کے لیے مفاہمت ناگزیرہے تو فلسطینیوں کی آزادی اور دیگر دیرینہ مطالبات کے لیے بھی مفاہمت بہ درجہ اولیٰ ناگزیر ہوگی۔