انتباہی اشارا
فلسطینی دانشور اور ’’فیوچر اسٹڈی سینٹر‘‘ کے چیئرمین ابنراہیم المدھون نے مرکز اطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے یورپی یونین کی عدالت کے فیصلے پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اول تو یہ ایک ابتدائی نوعیت کا فیصلہ ہے حتمی نہیں ہے۔ دوم یہ کہ حماس کو اس فیصلے پوشیدہ محرکات سے خبردار رہناچاہیے کہ آیا یورپی یونین ایسے کسی اقدام کے پس پردہ حماس کو بلیک میل تو نہیں کرنا چاہتی۔ کیونکہ بلیک میلنگ کے لیے عموما دنیا میں اس نوعیت کے فیصلے اکثر صادر ہوتے رہتے ہیں۔ یورپ کے حماس کے بارے میں بدلتے سیاسی اور قانونی رویوں کے پس پردہ محرکات پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی عدالت کا فیصلہ قانی ہے سیاسی نہیں۔ یورپی حکومتیں اس فیصلے پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ اسے کسی دوسری عدالت میں چیلنج کردیا جائے یا انسانی حقوق ہی کی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی جائے۔ اس سلسلے میں کسی بھی وقت یورپی ممالک کی طرف سے کوئی نہ کوئی فیصلہ سامنے آسکتا ہے۔
خیال رہے کہ کل بدھ کو یورپی یونین کی انسانی حقوق کی ایک عدالت نے حماس کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست سے خارج کرنے کا فیصلہ صادر کرتے ہوئے تنظیم پرعاید پابندیاں ختم کرنے کا حکم دیا تھا تاہم عدالت نے تین ماہ کے اندراندر فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کا دروازہ بھی کھلا رکھا ہے۔
ابراہیم مدھون نے کہا کہ ہمیں یورپی یونین کی عدالت کے پس پردہ محرکات کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ یورپ میں بلیک میلنگ کا تیزی سے فروغ پاتا رحجان، حماس اور اسرائیل کے بارے میں بدلتی یورپی پالیسی، فلسطینی ریاست کو تیزی کے ساتھ تسلیم کیے جانے کے پس پردہ محرکات کیا ہوسکتے ہیں۔ کیا یورپ واقعی اسرائیل کو ایک دشمن ملک قرار دے سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپ میں ایک وقت تک یاسرعرفات مرحوم کی جماعت تحریک فتح بھی دہشت گر گروپوں میں شامل رہی۔ آخر کار فرانسیسی اور مغربی چالیں رنگ لائیں۔ مغرب اور روس کے درمیان سرد مہری نے فتح کو پابندیوں کے جال سے تو نکالا مگر بلیک میلنگ کے ایسے جال میں الجھایا کہ اسے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے اوسلو معاہدہ کرنا پڑا۔
سنہری موقع
ابراہیم مدھون کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی انسانی حقوق کی عدالت کا فیصلہ وہاں کی حکومتوں کے لیے اپنی ماضی کی غلطیوں کی اصلاح اور غیرمنصفانہ طرز عمل ختم کرنے کا ایک سنہری موقع ہے۔ عین ممکن ہے کہ عدالت کے فیصلے بعد یورپ خود کو فلسطینی قوم کے آزادی کے انقلاب، کو تسلیم کرے۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ہر صورت میں اپنے بنیادی اصولوں، نظریات اور آزادی کے لیے جاری جدو جہد کو جاری رکھنا چاہیے۔ قوم کے دفاع کے لیے ہمیں مزاحمت سے دست بردار نہیں ہونا۔ فلسطینی قوم کی یہی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ قوم کے غیر متزلزل عزم اور صہیونی ریاست کی شکست مارے قومی قضیے اور مزاحمت پر مزید استقامت کا ذریعہ بن جائے۔
ابراہیم مدھون کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی عدالت کا فیصلہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کے لیے بھی ایک سنہری موقع ہے کہ وہ حماس کے ساتھ معاندانہ روش اپنانے کے بجائے مفاہمانہ طرز عمل اختیار کریں اور مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے حماس اور تمام سیاسی جماعتوں کو باہم متحد کرکے جدوجہد شروع کریں۔ جہاں امن کے لیے زیتون کی ٹہنی کی مثال دی جاتی ہے وہیں امن کے لیے گاہے بندوق بھی ضروری ہے۔ القسام بریگیڈ کے جانثاروں کی فوج اور امن کی آواز کو باہم یکجا کرنے کا اس سے بہتر اور کوئی موقع نہیں ہے۔
غلطی کی اصلاح کا موقع
یورپی یونین کی عدالت کے فیصلے کے رد عمل میں حماس کے سیاسی شعبے کے نائب صدر ڈاکٹر موسیٰ ابومرزوق نے اپنے بیان میں یورپی عدالت کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ یورپی حکومتوں کے لیے اپنی غلطیوں اور ناانصافیوں کی اصلاحکا بہترین موقع ہے۔ یہ فیصلہ فلسطینی قوم کی آزادی کے لیے مسلح مزاحمت کی حمایت کرنے والوں کی تایید ہے اور یہ اس بات کا اعلان ہے کہ استعماری قوتوں سے آزادی کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانا آئینی اور قانونی حق ہے۔
فیصلے سے زیادہ امیدیں وابستہ نہ کی جائیں
یورپی یونین کی عدالت کی طرف سے حماس کا نام دہشت گرد گروپوں کی فہرست سے خارج کیے جانے کے موضوع پر فلسطینی ماہر سیاست پروفیسر ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے کہا کہ اس فیصلے سے زیادہ امیدیں لگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس کا مجھے کوئی خاص فایدہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یورپ اور اسرائیل کا ایجنڈا الگ ہے اور حماس کا ایجنڈا مسلح مزاحمت کے ذریعے فلسطین کی آزادی ہے۔ ایسے میں بھی پوری ممالک کس طرح اس بات پر راضی ہوں گے کہ حماس کو دہشت گرد گروپوں کی فہرست سے خارج کیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں پروفیسر قاسم کا کہنا تھا کہ اگرچہ یورپی یونین کی عدالت کا فیصلہ مثبت ہے کیونکہ اس سے حماس پر عاید پابندیوں کے اٹھائے جانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ لیکنن سوال یہ ہے کہ آیا اس فیصلے کے بعد کیا ہوگا۔ کیا واقعی یورپی ممالک حماس کے لیے اپنے دروازے کھول دیں گے۔ حماس اور یوپی ممالک کے مابین تعلقات قائم ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک میں حماس پر پابندیوں کے علی الرغم بعض اداروں اور ممالک کے ساتھ حماس کے کسی نہ کسی شکل میں روابط رہے ہیں۔ عدالت کے فیصلے ان روابط میں مزید استحکام کا امکان بہرحال موجود ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل حماس کے ارکان پارلیمان کا ایک وفد سوئٹرزلینڈ اور بلغاریہ کا کامیاب دورہ کرچکا ہے۔ اس دورے پر یورپ کے بعض دوسرے ممالک کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
عدالتی فیصلہ تعلقات کی نئی بنیادیں ڈالے گا
یورو۔ مڈل ایسٹ انسانی حقوق آبزرویٹری کے چیئرمین ڈاکٹر رامی عبدہ نے یورپی یونین کی عدالت کی طرف سے حماس کا نام دہشت گرد گروپوں کی فہرست سے خارج کیے جانے کو فلسطینیوں کی فتح قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی ممالک نے حماس پر پابندیاں لگا کر نہایت شرمناک کھیل کھیلا تھا۔ حماس پرپابندی یورپ کا اخلاقی اسکینڈل تصور کیا جائے گا۔
رامی عبدہ نے کہا کہ انسانی حقوق کی عدالت نے اپنا فیصلہ صادر کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ یورپی حکومتوں نے غؒط معلومات کی کی بنیاد پر حماس پر پابندیاں عاید کی تھیں۔ انہیں اپنے قبلہ درست کرلینا چاہیے۔ یورپ کی طرف سے حماس پر پابندیوں کے لیے صرف انٹرنیٹ اور اسرائیلی میڈیا کی بنیاد پر فیصلے کیے تھے جن میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ یورپ کو یہ غلط بتایا گیا کہ حماس یورپی ممالک کے عوام کے لیے خطرہ ہے۔ پابندیوں اور دہشت گرد قرار دینے کے باوجود حماس نے یہ ثابت کیا کہ وہ خالصتا فلسطین کی آزادی کے لیے جدو جہد کرنی والی تنظیم ہے جو کسی دوسرے ملک سے کوئی دشمنی نہیں رکھتی۔ انہوں نے کہا کہ یورپی عدالت کے فیصلے کی مثال ایک کرین کی ہے جس کی مدد سے مزید تعمیرات کی جاسکتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس فیصلے کے بعد حماس اور یورپ کے مابین تعلقات کے ایک نئے باب کا آغاز ہوسکے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین