مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق قطری وزیرخارجہ اور ڈاکٹر خالد بن محمد العطیہ اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے وزیر یووفال شٹائنٹز کے درمیان میونخ کانفرنس کے آخری سیشن میں اس وقت سخت نوک جھونک ہوئی جب صہیونی وزیر نے الزام عاید کیا کہ اسرائیل کو حماس جیسے "دہشت گرد” گروپوں سے خطرات لاھق ہیں۔
اس پر قطری وزیرخارجہ نے صہیونی وزیرکی بینڈ بجاتے ہوئے کہا کہ حماس فلسطین کی آزادی اور غاصب صہیونی ریاست کے ناجائز فوجی قبضے سے کے خاتمے کے لیے آئینی اور قانونی جدود جہد کررہی ہے۔ حماس کی مسلح جدو جہد اپنے وطن کی آزادی ہے۔ اسے کسی صورت میں بھی دہشت گرد قرار نہیں دیا سکتا ہے۔
میونخ کانفرنس میں اسرائیلی انٹیلی جنس کے وزیر نے نیتن یاھو کی نمائندگی کی۔ انہوں نے حسب معمول مشرق وسطیٰ کے مسائل پر بات کرتے ہوئے عرب ممالک اور ان کی حکومتوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس پر کانفرنس میں موجود عرب وزراء نے اپنی تقاریر میں صہیونی وزیر کی خوب خاطر تواضع کی۔
صہیونی وزیرکی جانب سے حماس پر بلا جواز تنقید پر قطری وزیرخارجہ ڈاکٹر العطیہ نے اپنی نشت پر کھڑ اسرائیلی وزیر کے الزامات کا منہ توڑ جواب دیا اور اسے چپ کرا دیا۔ اس کے بعد صہیونی وزیر کو نہایت مایوسانہ انداز میں کانفرنس ہال کو چھڑڑنا پڑا۔ تاہم انہوں نے اپنی تقریر میں الزام عاید کیا کہ قطر جیسے ممالک حماس اور اس کے حامی گروپوں کی حمایت کر رہے ہیں۔
اس کے جواب میں قطری وزیرخارجہ نے کہا کہ ان کا ملک حماس کے سیاسی شعبے کی حمایت کرتا رہے گا۔ دوحہ نے حماس کی قیادت کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے جس پرکسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حماس اپنے آئینی حق کے حصول کے لیے جدو جہد کر رہی ہے۔
اسرائیل کے خلاف کسی بھی فلسطینی کو آزادی کے لیے جدو جہد کا بھرپور حق حاصل ہے۔ ہم حماس کو مجرم نہیں بلکہ ہزاروں فلسطینیوں کو بے رحمی سے قتل کرنے والے صہیونی ملک کو تنقید کو جنگی مجرم قرار دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی میں محاصرے اور جنگوں کو مسلط کرنے کا ذمہ دار ہے۔ صہیونی ریاست ہی نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی مساعی کو سبوتاژ کیا۔
اسرائیل امن چاہتا ہے تو دہشت گردی بند کردے
قطری وزیرخارجہ ڈاکٹر خالد العطیہ نے کہا کہ جب اسرائیل امن کی بات کرتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ بدامنی کی اصل وجہ وہ خود ہے۔ اگر مشرق وسطیٰ میں دیر پا قیام امن کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے تو پہلے اسرائیل کو اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں ختم کرنا ہوں گی۔
صہیونی وزیر کی طرف توجہ کیے بغیر حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم سے حماس کے بارے میں موقف جاننا ہے تو ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ حماس دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند اور آزادی کے لیے جدو جہد کرنے والی تنظیم ہے۔
اسرائیل فلسطین پراپنا ناجائز قبضہ ختم کردے تو حماس کی مسلح مزاحمت خود بہ خود ختم ہو جائے گی لیکن جب تک فلسطین پر اسرائیلی فوج قابض تب تک فلسطینیوں سے مزاحمت کا حق سلب نہیں کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کانفرنس کے میزبان سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں تقریر کے لیے مزید وقت دیں تاکہ وہ حماس کی امن پسندی اور اسرائیلی دہشت گردی پر مزید بات کرسکیں۔
ڈاکٹر العطیہ نے کہا کہ پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل کو ارض فلسطین میں طاقت کے بل بوتے پرقائم کیا گیا ہے۔ فلسطینیوں کی زمین ان سے چھینی گئی اور صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکالا گیا ہے۔ اس کے بعد بھی فلسطینی ہی دہشت گرد کیوں قرار دیے جا سکتے ہیں۔ دہشت گرد تو یہودی ریاست ہےجس نے فوج اور اسلحے کے زور پرفلسطین میں ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
قطری وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ان کا ملک مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی عالمی مساعی کی حمایت جاری رکھے گا مگر قیام امن کے لیے اسرائیل کو دہشت گردانہ پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا۔ فلسطینیوں کے تمام آئینی مطالبات ماننا پڑیں گے۔
خیال رہے کہ میونخ میں منعقد ہونے والی عالمی امن کانفرنس تین روز تک جاری رہی جس میں 20 سے زاید سربراہان مملکت اور 60 ممالک کے وزرائے خارجہ نے بھی شرکت کی۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین