اسرائیل کے کثیرالاشاعت عبرانی اخبار”ہارٹر” نے اپنے تازہ اداریے میں لکھا ہے کہ غزہ کی پٹی پر حملہ اسرائیل کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے جسے اگلا جا سکتا ہے اور نہ نگلا جا سکتا ہے۔
اس جنگ کی وجہ سے اسرائیل ایک تنگ گلی میں پھنس چکا ہے اور صہیونی ریاست کو تنگ گلی سے باہر نکلنے کے لیے راستے کی تلاش ہے جو تاحال نہیں مل سکی ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ غزہ جنگ کامیابی سے ہم کنار ہو لیکن ابھی تک کامیابی کا دوردور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ غزہ پر 08 جولائی کو کیا گیا حملہ سنہ 2006ء میں لبنان کے خلاف لڑی گئی جنگ سے کافی حد تک مشابہت رکھتا ہے۔ اس جنگ سے نکلنے کے لیے طریقہ کار بھی وہی اختیار کیا جائے گا جو سنہ 2006ء کی جنگ میں چنُا گیا تھا۔
اخبار لکھتا ہے کہ سنہ 2006ء کی حزب اللہ اسرائیل جنگ میں فریق ثانی [اسرائیل] کو وہ سیاسی اور عسکری مقاصد حاصل نہیں ہوئے جس کا وہ خواہاں تھا، لیکن اس کا حل سلامتی کونسل کی ایک قرارداد کے ذریعے نکالا۔ اب کی بار بھی اسرائیل کے پاس مذکورہ مفادات کے حصول کا واحد راستہ سلامتی کونسل کی ایسی قرارداد ہے جو اسرائیل کے مفادات کی ضمانت فراہم کر سکے۔
اخبار لکھتا ہے کہ مسلسل دو ہفتے کی بے مقصد بمباری کے باوجود جنگ بندی کا کہیں بھی امکان دکھائی نہیں دیتا ہے۔ جنگ بندی کے لیے سرگرم امریکا، مصر،قطر، ترکی ناروے، اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری اور بعض یورپی ممالک ابھی تک جنگ بندی کے حوالے سے کسی متفقہ لائحہ عمل تک نہیں پہنچ پائے ہیں بلکہ صورت حال اس کے بھی برعکس ہے اور آٹا گوندھنے والوں نے آٹا مزید خراب ہی کر دیا ہے۔
ہارٹز کے مطابق اسرائیل جنگ بندی کے لیے تیار ہے لیکن حماس نے جنگ بندی تجویز مسترد کر دی ہے، حتیٰ کہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل اور فلسطینی صدر محمود عباس کے درمیان دوحہ میں ہونے والی ملاقات بھی بغیر کسی نتیجہ کے ختم ہو گئی ہے۔ خالد مشعل نے محمود عباس کی جنگ بندی سے متعلق تجاویز سے بھی اتفاق نہیں کیا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اسرائیلی حکومت کو بہ خوبی ادراک ہے کہ جنگ بندی کے لیے جو شرائط ماضی میں پیش کی جاتی رہی ہیں، اب وہ ناممکن ہیں۔ اسرائیلی کابینہ کے وزراء اور دیگرسرکردہ عہدیداروں کو اندازہ ہوچلا ہے کہ حالات ان کے حق میں نہیں بلکہ مخالف ہو گئے ہیں۔ اس وقت تو اسرائیل کو زیادہ ہی مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب جب حماس نے جنگ بندی کی تجویز مسترد کر دی۔ حماس کی جانب سے مصرکی ثالثی میں جنگ بندی کی تجویز مسترد کیے جانے کے بعد اسرائیل کو بھی متبادل "حل” کی تلاش ہے۔ اسرائیل یہ بھی چاہے گا کہ نئی جنگ بندی کے کس بھی معاہدے میں حماس کو زیادہ سے زیادہ مشکلات میں رکھا جا سکے۔
اخبار نے ایک ایک تجویز کرتے ہوئے باردگر سنہ 2006ء کی اسرائیل ، حزب اللہ جنگ کا حوالہ دیا اور کہا ہے کہ اب کی بار بھی جنگ سے باہر نکلنے کا وہی طریقہ ہو سکتا ہے جو حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی 35 دن تک جاری رہنے والی لڑائی کے خاتمے کے لیے اپنایا گیا تھا۔ اس جنگ میں مصر،امریکا،اس کےعالمی اتحادی، فلسطینی اتھارٹی، عرب لیگ اور بعض دوسرے ممالک نے مل کر سلامتی کونسل سے جنگ بندی کے لیے قرارداد نمبر1701 جاری کرائی جس کے بعد جنگ بندی ممکن ہوئی۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس قرار داد نمبر1701 میں نہ صرف جنگ بندی ہوئی بلکہ اسرائیل کو وہ سیاسی مقاصد بھی حاصل ہوئے جن کے حصول میں فوجی کارروائی ناکام رہی تھی۔ اسرائیل لبنان کے ایک بڑے حصہ پر قبضہ کرنا چاہتا تھا تاکہ حزب اللہ کو تنہا کیا جا سکے اور اس کے بھاری اسلحہ کے ذخائر اور میزائلوں کو تلف کرنے کی راہ نکالی جا سکے۔ عالمی برادری نے اسرائیل کو یہ یقین دلایا کہ اب حزب اللہ اپنا اسلحہ اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں کرے گی۔
اخبار نے غزہ جنگ کی تنگ گلی سے نکلنے اور سلامتی کونسل کی مدد سے اس کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنی حکومت کو چند مفید مشورے بھی دیے ہیں۔
وہ اہم تجاویز درج ذیل ہیں۔
یہ کہ عالمی برادری غزہ کی پٹی میں فلسطینی صدر محمود عباس کی عمل داری میں حکومت قائم کرائے، چاہے اس حکومت میں حماس بھی شامل ہو مگر مکمل نگرانی صدر عباس کو حاصل رہے۔ اسرائیل اس حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا پابند ہو۔
فلسطینی سرحد اور گذرگاہوں پر فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے تعینات کیے جائیں۔
غزہ کی پٹی میں مزاحمت کاروں کے پاس راکٹوں اور بھاری اسلحہ کے ذخائر کی تلفی کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور اقوام متحدہ کے مبصرین کو مصری سرحد کے دورے کرائے جائیں تاکہ وہ امن وامان کی صورت حال کو دیکھ سکییں کہ آیا جنگ بندی کی پابندی ہو رہی ہے یا نہیں۔
غزہ کی پٹی کا معاشی محاصرہ بالخصوص ماہی گیر پر عائد پابندیاں اٹھائی جائیں نیزغزہ کی پٹی کے لیے ایک بندرگاہ کی تعمیر کی راہ ہموار کی ہے۔
اخبار مزید لکھتا ہے کہ سنہ 2006ء میں جاری کردہ جنگ بندی کی قرارداد میں بہت سے سقم بھی تھے اور موجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو تو اس قرارداد کے سب سے بڑے ناقد ہیں، کیونکہ اس قرارداد کے بعض نکات پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ اس لیے مکمل طور پر اس قرارداد کو رول ماڈل نہیں بنایا جا سکتا تاہم جس طریقے سے وہ قرارداد منظور کی گئی تھی غزہ جنگ سے نکلنے کے لیے ایسا طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ:مرکزاطلاعات فلسطین