(روز نامہ قدس ۔آنلائن خبر رساں ادارہ ) میں جانتا ہوں کہ جو کچھ میں لکھنے جارہا ہوں اس کو پڑھنے کے بعد بہت سارے لوگ تو مجھے حقائق سے بے خبر تصور کریں گے لیکن مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا ہے کہ کوئی مجھے کیا کہے گا اس لئے میں آج یہ کہہ رہا ہوں کہ اسرائیل جو کہ بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع یہ تقریبا 23 ہزار کلو میٹر پر محیط ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ اپنے نسبتاً چھوٹے سائز کے باوجود یہ ملک دنیا کے طاقتور ترین ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے سالانہ سروے کے مطابق فوجی طاقت، ثقافتی اثر و رسوخ، معیشت، تعلیم، صحت اور انٹرپرینیورشپ سمیت متعدد دیگر شعبہ جات کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا کے کامیاب 80 ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے، جس مجموعی طور پر "بہترین ممالک” کی درجہ بندی میں صہیونی ریاست اسرائیل آٹھویں نمبر پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی۔عالمی معاملات میں بھی اسرائیل کا کردار بہت ہم ہے ۔اس ملک کی معیشت مضبوط ہے، خوشحالی کی فہرست میں یہ ملک 32 ویں نمبر پر ہے اس ساری جدید ٹیکنالوجی عالمی اثر رسوخ اور بے تحاشہ طاقت کے باوجود ایک ایسی قوم کے ہاتھوں بتاہی کی جانب تیزی سے جارہا ہے جس کے پاس کھانے کے لئے دووقت کی روٹی نہیں ہے۔
جی ہاں میں بات کررہا ہوں مظلوم فلسطینیوں کی کہ جن کے ہاتھوں اسرائیل انتہائی شرمناک ذلت کا شکار ہے ، یہ میرا خیال یا تجزیہ نہیں ہے بلکہ وہ حقائق ہیں جس کو میں آپ کے سامنے رکھنے والا ہوں۔
مقبوضہ فلسطین میں صہیونی ریاستی دہشتگردی کے خلاف ، حماس ، اسلامی جہاد اور پاپولر فرنٹ سمیت دیگر درجنوں مزاحمتی تحریکیں ارض مقدس کو صہیونی پنجوں سے چھڑانے کےلئے برسرپیکار ہیں اور یہ گذشتہ ستر سالوں سے اسرائیلی مظالم کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہیں تاہم گذشتہ چھ ماہ سے اسرائیل میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے طرز کاررائی میں غیر معمولی تبدیلی اور تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مزاحمتی تحریک "عرين الأسود”کا اسرائیلی فوج کے نام پیغام
گزشتہ ہفتوں کے دوران مغربی کنارے کے شہر نابلس میں "عرين الأسود”( شیر کی کچھار) نامی مزاحمتی گروپ کا نام عرب اور بین الاقوامی میڈیا میں سرخیوں میں آیا ، اس گروپ نے صہیونی سیکیورٹی ایجنسیز کو پریشان کردیا ہے ان کے حملوں کے بعد اسرائیل کے فیصلہ ساز عسکری اور سیاسی حلقوں کو انتہائی سنگین صورتحال سے دوچار کردیا ہے ۔
صہیونی ریاست کے اخبار اسرائیل ٹوڈے اخبار نے اس حقیقت کی تصدیق کی جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، وہ یہ ہے کہ اسرائیل کو "عرين الأسود” کے جس قسم کے حملوں کا سامنا ہے اسرائیل کو اس سے قبل اس قسم کے حملوں کا کبھی سامنا نہیں ہوا ۔
"عرين الأسود” کا مختصر تعارف
اسود الاسود گروپ 2022 میں مقبوضہ بیت المقدس کے شہر نابلس میں نمودار ہوا، اور اس میں کئی فلسطینی دھڑوں سے تعلق رکھنے والے مجاہدین جن میں فلسطینی نیشنل لبریشن موومنٹ (فتح) کی الاقصیٰ شہداء بریگیڈز ، القدس، اسلامی جہاد تحریک کے عسکری ونگ اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ،پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین سمیت فلسطینی سیکیوررٹی سروسز کے سابق ارکان شامل ہیں، لیکن وہ خود کو کسی خاص گروہ سے منسوب کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
مزاحمت کاروں کی کارروائی، صہیونی آبادکاروں کی گاڑیوں کو آگ لگا دی
اس گروپ کی پہلی کارروائی فروری 2022 میں ریکارڈ کی گئی جب نابلس کے قصبے میں اس گروپ نے صہیونی فوجی اہداف پر فائرنگ کی جس میں چار اسرائیلی فوجی بری طرح زخمی ہوئے ، ابتدامیں اسرائیلی فوجی حکام نے اس کو ایک معمولی مزاحمتی کارروائی قرار دیا اور اس کا ذمہ دار ایک غیر معروف چھوٹے مسلح گروپ کو قرار دیا، جو "جینین بریگیڈ” جو خود کو "نابلس بریگیڈ” کہتا ہے۔
اسرائیلی اخبار Ha’aretz نے اس کارروائی کو صفح اول پر جگہ دی اور اسرائیلی عسکری حکام سے جواب طلب کیا اور یوں یہ کارروائی میڈیا پر زور پکڑ گئی جس کے بعد انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر، اسرائیلی داخلی سلامتی کی خفیہ ایجنسی (شاباک ) نے اس گروپ کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ فروری 2022 میں "شاباک ” کی مسلح بٹالین کے 4 ارکان کے اسرائیلی فوجیوں کو نشانہ بنانے والے گروپ "عرين الأسود” کے اہم کمانڈر کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔اسرائیلی الیمام ڈویژن منگل 8 فروری کو دوپہر کے وقت نابلس شہر میں فلسطینی نمبر پلیٹ کی گاڑیوں میں داخل ہوئے لیکن "عرين الأسود” کے مجاہدین اسرائیلی خفیہ آپریشن سے پہلے سے ہی وقف تھے جیسے ہی وہ مجاہدین کی رینج میں آئے فلسطینی مزاحمت کاروں نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور یوں اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے اہلکار موقع پر ہلاک ہوئے جس کی تفصیلات اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری نہیں کی گئی تاہم اس حملے میں چار فلسطینی ادھم مبروکہ، محمد الدخیل، اور اشرف مبسلات اوراس آپریشن کے سربراہ ابراہیم النبلسی بھی شہید ہوئے
ابراہیم نابلسی کی شہادت کے ایک ماہ بعد نابلس کے جنوب میں واقع گاؤں حوارہ کے قریب ایک صہیونی آبادکار کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا یہ پہلا موقع تھا کہ "عرين الأسود” گروپ نے اس واقعے کی باضابطہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسرائیل کو خبر دار کیا تھا کہ اگر نہتے فلسطینیوں کو بے رحمی سے قتل کیا جائے گا تو اس کے جواب میں ہم اسرائیلی شہریوں کو قتل کریں گے اور یوں اس گروپ نے مقبوضہ مغربی کنارے اور یروشلم میں اسرائیلی فوجیوں اور غیر قانونی آبادکاروں کو نشانہ بنانشروع کیا اور اس کی ذمہ داری قبول کی۔
یہ بھی پڑھیے
"عرين الأسود” نے تین ستمبر کو درجنوں بندوق برداروں کے ایک منظم گروپ نے اپنی ایک ویڈیو جاری کی جس میں انھوں نے بتایا کہ اس گروپ کے بانی شہید محمد العزیز تھے، اور جسے انہوں نے "شیر” قرار دیا۔ درجنوں مسلح افراد کی قیادت میں ایک نقاب پوش شخص نے گروپ کا ایک بیان پڑھا، اور کہا، "ہماری بندوقیں ایک گولی بھی ضائع نہیں کریں گی ہمارا نشانہ کبھی خطانہیں ہوگا صہیونی دشمن ہمارے سامنے ایسے بے بس ہیں جیسے بپھرے ہوئے شیر کے سامنے بھیڑ ہماری منزل ارض مقدس کی آزادی ہے صہیونی دشمن سے اپنے ملک کو آزاد کرا کر دم لیں گے ۔
"عرين الأسود” کےاس بیان اور ان کے غیر معمولی حملوں کے پیش نظر "عرين الأسود” اسرائیلی فوجیوں کے لئے خوف کی علامت بن گئی ۔ اکتوبر کے مہینے میں "عرين الأسود” کے مجاہدین نے 6 اسرائیلی فوجیوں سمیت 25 اسرائیلی آبادکاروں کو قتل کیا اسرائیل کے معروف اخبار "یدیعوت احرونوت” نے اپنی رپورٹ فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں کو گذشتہ دو دہائیوں میں سب سے خطرناک قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اسرائیلی سیکیورٹی حکام کے لئے درد سر بن چکی ہیں ۔
اسرائیلی ٹی وی چینل 13 نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 24 اکتوبر اور 25 اکتوبر کے درمیان محض چوبیس گھنٹوں کے دوران صہیونی فوج پر بیت المقدس اور مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں پچاس سے زائد حملے کئے گئے ، ان حملوں میں ایک آبادکار اور اور 6 اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیے
صہیونی بمباری سے زخمی القسام بریگیڈ کا رکن شہید
اسرائیلی فوج نے گیارہ اکتوبر کو "عرين الأسود” کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے مقبوضہ بیت المقدس کے شہر نابلس کا محاصرہ شروع کیا اور یہاں بھی اسرائیلی جدید ترین ٹیکنالوجی اور خطرناک جاسوسی کے آلات اور ذرائع کو فلسطینی مجاہدین نے شکست دی، اسرائیلی حکام کا خیال تھا کہ چند روز کے محاصرے سے "عرين الأسود” جو کہ ایک چھوٹا سا گروپ ہے اس کو ختم کردیا جائے گا تاہم یہاں یہ ان کی غلط فہمی ثابت ہوئی اور 17 روز گزر جانے کے باوجود اسرائیلی فوج اور شہریوں پر فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں میں کمی آنے کے بجائے تیزی دیکھنےمیں آتی رہی ۔
بالآخر 22 اکتوبر کی رات کو صہیونی فوج نے خفیہ ایجنسی کی مدد سے "عرين الأسود” کے سربراہ 33 سالہ تامر کیلانی کو نابلس کے مضافاتی علاقے جبل جرزیم میں ان کی موٹر سائیکل میں دھماکہ خیز مواد نصب کرکے شہید کرنے میں کامیاب ہوئی لیکن اس کے باوجود اسرائیلی فوج اور اسرائیلی شہریوں پر مزاحمت کاروں کے حملوں میں زرا بھی کمی نہیں آئی بلکہ اس میں مزید شدت دیکھنے میں آئی ۔
اسرائیل کی سیکیورٹی کی صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ 26 اکتوبر کے اسرائیلی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ میں اسرائیلی فوج کے سابق افسر اور’یوسییھوشع‘ نے اس کو اسرائیلی کی تاریخ کاسنگین دور قرار دیا ہے دیتے ہوئے کہا ہے کہ نابلس میں صورتحال انتہائ تشویشناک ہے ، اسرائیلی فوج تمام تر کوششوں کے باوجود حالات کو قابو میں کرنے میں ناکام ہے۔ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں پانچ فلسطینیوں کی شہادت کے بعد خاص طور پر ’عرین الاسود‘ کے اہم کمانڈر کی شہادت کے بعد سے حالات قابو سے باہر ہیں۔
’یوسییھوشع‘ کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں سے سخت محاصرے کا شکار شہر نابلس اور غرب اردن اور مغربی کنارے کے کئی علاقوں میں شدید کشیدگی ہے حالات اس قدر تشویشناک ہیں کہ اسرائیلی فوج کے سربراہ اویو کوچاوی اور اسرائیلی اندرونی سلامتی کی ذمہ دار خفیہ ایجنسی "شاباک” کے سربراہ مقبوضہ شہر نابلس کے پرانے شہر میں ایک آپریشن کی نگرانی کر رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتاہے کہ صورتحال اس سے بہت گھمبیر ہے جو دیکھائی جارہی ہے کیونکہ اس قسم کے آپریشنز کی نگرانی ایک ڈویژن کمانڈر ذمہ داری پوری کرتا ہے لیکن اسرائیلی فوج اور شاباک کے سربراہان کا براہ راست آپریشن کی نگرانی بتارہی ہے کہ کچھ بھی اچھا نہیں ہے ، حالات اس سے بھی گھمبیر ہیں جو نظر آرہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
صہیونی فوج کے ہاتھوں 35 بچوں اور 20 خواتین سمیت 450 فلسطینی گرفتار
یہاں ایک جانب فلسطینی مزاحمت کاروں کے خطرناک حملے اسرائیلی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں تو دسری جانب اسرائیلی سیاسی صورتحال بھی تشویش کا شکار ہے یہاں سیاسی عدم استحکام کےساتھ فلاشا یہودی اور اور اشکنازیوں کے درمیان نسل پرستی نے بھی اسرائیلی کو ایک سنگین صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔
اسرائیلی کی سلامتی کی صورتحال اس قدر گھمبیر ہوچکی ہے کہ 62 فیصداسرائیلی شہریوں نے اسرائیلی براڈکاسٹنگ کارپوریشن ("کینز 11”) کی جانب سے کئے جانے والے سروے میں مزاحمت کاروں کے خطرناک حملوں کو صہیونی ریات کی سلامتی کے لئے تباہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہا ہے اور حالیہ سیکیورٹی کی صورتحال میں اسرائیلی شہری خود کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ۔
یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی جانب سے یہ حملے صرف مقبوضہ بیت المقدس اور مغرنی کنارے کے مختلف شہروں میں ہی نہیں بلکہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب تک میں کئے جاچکے ہیں ، فلسطینی مجاہد نے پندرہ روز قبل بین گوریان ایئر پورٹ پر ایک سیکیورٹی اہلکار کو چاقو کے کاری وار سے شدید زخمی کردیا تھا جبکہ ایک اسرائیلی فوجی بس جس میں اسرائیلی فوجی موجود تھے اس کو بھی فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا تھا ،اس حملے کے حوالسے سے بھی اسرائیلی فوج کی جانب سے تفصیلات فراہم نہیں کی گئیِ۔
یہ بھی پڑھیے
فلسطینی شہداء کو حماس کا خراج عقیدت
یہاں فلسطینی مجاہدین کے بہادرانہ حملوں کی تفصیل بہت طویل ہے المختصر یہاں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ کے علاوہ اب فلسطینی مجاہدین ان علاقوں میں بھی آزادانہ کارروائیاں کرر ہے ہیں جو براہ راس اسرائیلی علمداری میں آتے ہیں ۔
تحریر: حسیب اصغر