غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی مزاحمت کاروں اورقابض اسرائیل کے درمیان ’تغیر پذیر‘ ’روز آف گیم‘ کے تحت اسرائیل نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس نئی پالیسی کے تحت اسرائیل موجودہ علاقائی سیاسی صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلسطینی مزاحمتی قوت کو بھاری نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
گذشتہ تین ماہ سے اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی کھودی گئی سرنگوں کو نشانہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ غزہ کے اطراف میں موجود صیہونی کالونیوں پر راکٹ حملوں کو آڑ بنا کر اسرائیل نے نہ صرف غزہ کی پٹی میں سرنگوں پر بمباری تیز کردی ہے بلکہ غزہ کی پٹی کا محاصرہ مزید سخت کرنے کے ساتھ بیرون ملک فلسطینی مجاھدین کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی کا اعادہ کیا ہے۔عبرانی زبان میں نشر ہونے والے موقر اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ غزہ اور مصر کے درمیان سرحد پر جس سرنگ کو اسرائیلی فوج نے بمباری سے نشانہ بنایا ہے اسے جزیرہ سیناء اور غزہ کے درمیان اسلحہ کی منتقلی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اس سرنگ سے اسرائیل میں دراندازی اور غزہ کے اطراف میں موجود صیہونی کالونیوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی۔
نیا توازن
حال ہی میں غرب اردن کے شہر نابلس میں ایک یہودی ربی کے قتل کے بعد صیہونی ریاست سخت سیخ پا ہے۔ چونکہ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے اس کارروائی کی تحسین کی ہے اس لیے صیہونی دشمن حماس کی بیرون ملک قیادت کو بھاری قیمت چکانے کے لیے نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ یوں اسرائیل نے بیرون ملک فلسطینی قیادت کی قاتلانہ حملوں میں شہادت کا نیا باب کھول دیا ہے۔
گذشتہ نومبر کے آخر سے اب تک اسرائیل غزہ کی پٹی کی سرنگوں اور مزاحمتی مراکز پر بمباری کرتا رہا ہے اور 40 سے زائد مقامات پر بمباری کرچکا ہے۔
تجزیہ نگار محمد مصلح کا کہنا ہے کہ غزہ میں حال ہی میں ایک سرنگ پر اسرائیلی بمباری کے دو پہلو ہیں۔ پہلا تو یہ کہ اسرائیل اپنے حفاظتی نقطہ نظر سے غزہ کی سرنگوں کو تباہ کررہا ہے۔ اس طرح اسرائیل فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کو لاجستک اور مادی و سیکیورٹی نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ دوسرا یہ کہ حماس کیÂ صفوں میں افراتفری پھیلا کر جماعت کی عسکری صلاحیت کو مشکوک کرنا چاہتا ہے۔ تاکہ حماس کی قیادت اور کارکن خود ہی اپنی سیکیورٹی حکمت عملی سے مایوس ہوجائیں۔
اسرائیل نے اپنے طورپر اس سرنگ کو تباہ کرکے دو ہدف پورے کئے ہیں۔ ایک تواسرائیل نے خود کو لاحق اس سرنگ سے خطرات کا انسداد کیا ہے اور دوسرا حماس اور مصر کے درمیان تنازع کھڑا کرنے دونوں کے درمیان الجھن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ سرنگ ایک ایسے وقت میں مسمار کی گئی ہے جب مصر حماس اور تحریک فتح کے درمیان مصالحتی کوششوں میں مصروف ہے۔
اسرائیل کے سیکیورٹی امورکے ماہر ڈاکٹر ابراہیم حبیب نے کہا کہ فلسطینی سرنگوں سے نمٹنے کے لیے اسرائیل کے پاس تباہ کن کارروائی کی اسٹریٹیجی اور ویژن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین ماہ سے غزہ کی پٹی میں سرنگوں کی نشاندہی اور انہیں تباہ کرنے کی صیہونی پالیسی میں شدت اس لیے آئی ہے کہ اسرائیل نے ان سرنگوں کی نشاندہی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے غزہ کی پٹی میں سرنگوں کی نشاندہی میں اسرائیل کی مدد کی ہے۔
سیاسی اور فوجی منظر نامہ
مبصرین کا کہنا ہے کہ عرب ممالکÂ اور مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی بے چینی سے اسرائیل نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ اسرائیل مصر پر حماس کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ خود بھی صیہونی ریاست فلسطینی مزاحمت کاروں کے تعاقب میں سرگرم ہے۔
تجزیہ نگار مصلح کا کہنا ہے کہ علاقائی سیاسی حالات کے تناظر میں اسرائیل نے حماس پر دباؤ ڈالنے کے لیے مصر کے ساتھ ساز باز کی کوششٰں شروع کی ہیں۔ موجودہ علاقائی حالات اسرائیل کے لیے سازگار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل گیم رول تبدیل کررہا ہے۔
صیہونی ریاست نے بیرون ملک حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی مجرمانہ پالیسی ایک بارپھر اپنائی ہے۔ اس کی تازہ مثال لبنان کے شہر صیدا میں حماس رہنما محمد حمدان کو کار بم دھماکے کا نشانہ بنانا ہے۔ اگرچہ اس واقعے میں حمدان زخمی ہوئے ہیں تاہم بزدل صیہونی دشمن نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کررہا ہے۔
غرب اردن کے شہر نابلس میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی فائرنگ سے ایک یہودی ربی کی ہلاکت کے بعد اسرائیل فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو سبق سکھانے کی کوششوں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غزہ ک پٹی کے دوملین لوگوں کا محاصرہ مزید سخت کردیا گیا ہے۔
غزہ کی پٹی میں موجود سرنگوں کی نشاندہی کے لیے جدید آلات کا استعمال کیا جا رہا ہے۔