مبصرین کا کہنا ہے کہ ’نیوم‘ پروجیکٹ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے صدی کے ڈیل کے منصوبے کا پہلا بیج ہے۔ اگرچہ ابھی تک صدی کی ڈیل کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں مگر کہا جا رہا ہے کہ اس منصوبے کے تحت نیوم پروجیکٹ کو ایک شق کے طورپر شامل کیا گیا۔ نیوم منصوبے کے ٹیکنیکل امور کی ذمہ داری اسرائیل کے پاس ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے نتائج میں جزیرہ نما سیناء میں فلسطینیوں کی آباد کاری کی تجویز بھی شامل ہے۔
مصر کی طرف سے ’نیوم‘ منصوبے کے لیے جزیرہ نما سینا کے ایک ہزار مربع کلو میٹر کا علاقہ دینے سے کئی طرح کے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا یہ منصوبہ امریکی صدر ٹرمپ کی ’صدی کی ڈیل‘ کا حصہ ہے؟ کیا اس پروجیکٹ کے تحت فلسطینیوں کو جزیرہ سیناء میں آباد کرنے کی راہ ہموار کی جائے گی اور قضیہ فلسطین کو ختم کردیا جائے گا۔
خوابوں کا منصوبہ
’نیوم‘ منصوبہ سعودی عرب اردن اور مصر کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ اس منصوبے کو ’خوابوں کا پروجیکٹ‘ بھی قرار دیا جاتا ہے۔ نیوم منصوبہ ’اسمارٹ سٹی ریجن‘ پر مشتمل ہے۔
منصوبے کے تحت 9 اقتصادی محاور پر کام کیا جائے گا۔ یہی نو اہم اجزاء اس پروجیکٹ کا حصہ ہیں۔ ان میں توانائی، پانی، ٹرانسپورٹ، بائیو ٹکنالوجی، خوراک، ٹیکنیکل اور ڈیجیٹل سائنس، ایڈوانس مینیفکچرنگ، اطلاعات، میڈیا پروڈکشن، معیشت اور تفریح جیسے منصوبے شامل ہیں۔
نیوم منصوبے کے تحت غیر روایتی خوراک کی تیاری کے لیے کارخانوں کا قیام، فیکٹریاں، بین الاقوامی فلم پروڈکشن اسٹوڈیوز، سیاحتی ریزورٹ، بندرگاہیں، قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں کام کیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کے مدارالمہام اسے ’خوابوں کا شہر‘ قرار دیتے ہیں۔
مجموعی طورپرنیوم کا رقبہ 26 ہزار مربع کلو میٹر کا رقبہ شامل ہوگا۔ یہ رقبہ تینوں ممالک سے لیا جائے گا۔ سعودی عرب کے شمال مغرب میں بحر الاحمر، اردن کی وادی العقبہ اور مصر کے جزیرہ سیناء کا ایک ہزار مربع کلو میٹر کا رقبہ لیا جائے گا۔ جنوبی سیناء سے شرم الشیخ تک اس منصوبے کو ایک پُل کے ذریعے ملایا جائے گا جسے ’سلمان بریج‘ کا نام دیا جائے گا جس کا جلد افتتاح متوقع ہے۔ اردن کی وادی العقبہ نیوم کا حصہ ہوگی۔ جب کہ منصوبے میں 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
’نیوم‘ پروجیکٹ کے پوشیدہ پہلو
ہاف پوسٹ عربی‘ ویب سائیٹ نے ایک مغربی سفارتی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ نیوم منصوبے کی اقتصادی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر اس کے پیچھے اقتصادی فوائد نہیں بلکہ کچھ اور مقاصد بھی ہیں جن میں اس کا سیاسی پہلو بھی کم اہمیت کا حامل نہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد اور مشیر جارڈ کوشنر نے اکتوبر 2017ء کو سعودی عرب کا خفیہ دورہ کیا۔ اس دورے کا سب سے پہلے سراغ امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک ’سی این این‘ نے لگایا تھا۔ ان کے اس دورے کامقصد بھی نیوم منصوبے کے اقتصادی اور سیاسی مقاصد کو حتمی شکل دینا تھا۔ کوشنر نے اس منصوبے کے حوالے سے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے بھی تفصیلی بات چیت کی تھی۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’نیوم‘ پروجیکٹ عربوں اور اسرائیل کے درمیان جاری تاریخی علاقائی تنازع کے حل کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ یہ منصوبہ جنوبی جزیرہ سیناء سے شروع ہو کر شمال میںÂ پورے جزیرے کو اپنے گھیرے میں لے گا۔ اس کے بعد اردن، مصر اور سعودی عرب کے علاقوں کی مثلث پر مشتمل فری اقتصادی زون قائم کیا جائے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ نیوم منصوبے پر عمل درآمد کے دوران فلسطینیوں کے لیے ایک نیا ایکشن پلان سامنے لایا جائے گا۔ غزہ کی پٹی کے لوگوں کو مصر کے جزیرہ نما سیناء تک جانے اور آباد ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیوم پروجیکٹ کے ٹیکنیکل شعبے کی ذمہ داری اسرائیل کو دی جائے گی۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’نیوم‘ سب کے لیے منافع بخش ڈیل ہوگی۔ اسرائیل کی علاقائی تنہائی کا سلسلہ ختم ہوگا اور خلیجی ریاستیں بھی اسرائیل کو ایک آئینی ریاست کے طور پر تسلیم کرلیں گی۔ نیوم منصوبے میں فلسطینیوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس طرح قضیہ فلسطین کے منصفانہ حل کی تمام مساعی کو ختم کرتے ہوئے مخصوص قوتوں کی مرضی کا منصوبہ مسلط کرکے فلسطینیوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
اردن گومگوں کا شکار
مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ’نیوم‘ پروجیکٹ اور اس کے سیاسی اور اقتصادی اغراض ومقاصد پر مصر اور سعودی عرب متفق ہیں مگر اردن تا حال گومگوں کا شکار ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے عمان اور الریاض کے درمیان مکمل اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان منصوبے کے سیاسی مقاصد پر بحران موجود ہے۔ یہ منصوبہ علاقائی خود مختاری کو مشکوک بنا رہا ہے۔ مروجہ علاقائی قوانین سے بالا تر ہورہ کر ایسا کوئی بھی منصوبہ اردن کے لیے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔
سعودی عرب کی طرف سے نیوم منصوبے کے ذریعے دبئی جیسے سیاحتی اور اقتصادی منصوبوں کا مقابلہ کرنے والا شہر قائم کرنا ہے۔ نوجوان سعودی شہزادے کا بھی یہی خیال ہے تاہم یہ منصوبہ خطے میں سعودی عرب کی توسیع پسندی جیسے شکوک وشبہات بھی پیدا کررہا ہے۔
!اسرائیل کا مشکوک کردار
’ہاف پوسٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں سعودی عرب کے منصوبوں کی تفصیلات جاری کی ہیں۔اس ویب سائیٹ کا دعویٰ ہے کہ وہ سعودی عرب کے تمام ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات نشر اور شائع کرنے کا سب سے بڑا فورم ہے جو نیوم اور اس سے متصل دیگر منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیمنس کمپنی کے سابق چیئرمین کلاؤس کلائنفیلڈ ’نیوم‘ پروجیکٹ کی نگرانی کریں گے۔
کلائنفیلڈ کا شمار کامیاب منصوبہ سازوں اور انجینیروں میں ہوتا ہے۔ خاص طورپر صنعت اور ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں ان کی کامیابیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
’سرمایہ کاری کے مستقبل کے پروگرام‘ کے عنوان سے سعودی عرب میں منعقدہ کانفرنس میں کلائنفیلڈ سمیت کئی دوسرے مالیاتی اداروں، بنکوں اور سرمایہ کار کمپنیوں کے مندوبین نے شرکت کی۔ کانفرنس میں شہزادہ محمد بن سلمان کے پہلو میں جاپان کے سافٹ بنک کے چیئرمین ماسایوشی سون بھی موجود تھے۔ سون کا بیان اس وقت ایک شہزادہ محمد کے لیے باعث تشویش بنا جب انہوں نے کہا کہ ‘نیوم کے ذریعے ہم نیا مکہ‘ بنا رہے ہیں۔ دراصل وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ نیوم کے ذریعے ہم ایک نئی مملکت بنارہے ہیں مگر ان کی زبان سے مملکت کے بجائے مکہ کا لفظ نکل گیا تاہم شہزادہ محمد نے فوری طور پر ان کی زبانی لغزش کی اصلاح کردی۔
گوکہ نیوم میں اسرائیلی ریاست کے کردار کے حوالے سے ابھی تمام باتیں افواہوں تک محدود ہیں۔ تاہم اس منصوبے کے ساتھ اسرائیل کے نام کی وابستگی سب کےلیے ایک سوالیہ نشان ہے۔