فلسطینی شہری غزہ کی مشرقی سرحد سے روزانہ درجنوں ایسے آتشی کاغذی جہاز، غبارے اور پتنگ صیہونی کالونیوں کی طرف اڑاتے ہیں جو سرحد کی دوسری جانب گرتے ہی آگ لگا دیتے ہیں۔ ان کاغذی جہازوں سے کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا تاہم صیہونی ریاست کو کروڑوں شیکل کے مالی نقصان سے ضرور دوچار کردیا ہے۔ دوسری جانب صیہونی شہ دماغ اس مزاحمتی طریقے کا توڑ نکالنے میں اب تک ناکام نظر آتے ہیں۔ صیہونی فوج، انٹیلی جنس ادارے اور حکومت سب اب تک اعتراف کرتے رہے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے کاغذی آتشی جہازوں کا توڑ نکالنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ کبھی ڈرون کی مدد سے انہیں فضاء میں ختم کرنے کی مہم شروع کی جاتی ہے اور کبھی کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا جاتا یا طاقت کے استعمال کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
ان غباروں کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں ہائیڈروجن گیس یا ہیلیم گیس بھری جاتی ہے اور انہیں اس انداز میں تیار کیا جاتا ہے کہ ان کے زمین پر گرتے ہی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اب تک کئی سو مربع کلو میٹر پرپھیلی اسرائیلی فصلیں اور دیگر املاک ان گیسی غباروں کی زد میں آک خاکستر ہوچکی ہیں۔
صیہونی سائنس دان بھی حیران و پریشان
فلسطینیوں کی طرف سے کاغذی جہازوں کے مزاحمتی حربے کو ناکام بنانے کے لیے اسرائیلی سائنسدان اور ماہرین بھی سرجوڑ کر بیھٹے ہیں اور ان غباروں کا کوئی حل نکالنے پر اپنے دماغ کو استعمال کررہے ہیں۔ کل جمعہ کے روز اسرائیلی سائنسدانوں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کی ایک عظیم الشان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں 250 ماہرین اور سائنسدانوں نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس صرف اور صرف اس لیے منعقد کی گئی تاکہ صیہونی شہ دماغ فلسطینیوں کے گیسی غباروں کا آتشی کاغذی جہازوں کا کوئی توڑ پیش کریں۔
عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کی ویب سائیٹ پر پوسٹ ایک خبر میں اس کانفرنس کو ’غیرمعمولی‘ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ اس کانفرنس پر فلسطینیوں کے آتشی کاغذی جہازوں کا توڑ نکالنے کا بھاری بوجھ ہے جس نے غزہ کے اطراف میں جگہ جگہ آگ لگا کر صیہونی حکام کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔
عبرانی اخبار کے مطابق ماہرین اس لیے سر جوڑ کر بیٹھے کہ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسا کوئی حل تلاش کریں جس کی مدد سے فلسطینیوں کے گیسی غباروں اور آتش گیر کاغذی جہازوں کا توڑ نکالا جاسکے۔ ماہرین نے اس حوالے سے مختلف حل تجویز دیے ہیں جن میں لیزر سسٹم، بصریات اور راڈار کی شناخت کرنے والے’اوفق 8200‘ جیسے نظامÂ کی طرز پر کوئی نیا سسٹم تیار کرنا ہے۔
جدید ترین سسٹم
عبرانی زبان میں نشریات پیش کرنے والے ٹی وی چینل 2 کے مطابق اسرائیلی فوج عن قریب غزہ کی سرحدÂ پرایک نیا نظام نصب کرے گی جو فلسطینیوں کے گیسی غباروں اور کاغذی جہازوں کے توڑ میں مدد دے گا۔
عبرانی ٹی وی کے مطابق یہ جدید ترین سسٹمÂ ملٹری مصنوعات تیار کرنے والی ’البیٹ‘ کمپنی نے تیار کیا ہے۔ اسرائیلی فوج کو توقع ہے کہ نیا سستم فلسطینیوں کے کاغذی جہازوں کا مؤثر توڑ ثابت ہوگا۔
عبرانی ٹی وی چینل کے مطابق نیا دفاعی نظام ’فوٹو وولٹک‘ جسے بصری الیکٹریکل سسٹم اور لیزر کی مدد سے تیارکیا گیا ہے۔ یہ سسٹم فلسطینیوں کے گیسی غباروں اور آتش گیر کاغذی جہازوں کی سات کلو میٹر دور سے شناخت کرنے میں مدد دے گا۔ اس سسٹم کو غزہ کی پوری سرحد پر مختصر وقفے سے نصب کیا جائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی سرحد پر بعض مقامات پر یہ سسٹم نصب کیا ہے مگر اس سسٹم کی خاطر خواہ کامیابی کا کوئی ثبوت نہیں ملا کیونکہ فلسطینیوں کے پھینکے گئے گیسی غباروں سے آتش زدگی کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں۔
عن قریب حل
ادھر اسرائیلی وزیر برائے انصاف ایلیٹ شاکید نے امید ظاہر کی ہے کہ اسرائیل عن قریب فلسطینیوں کے غباروں اور آتش گیر کاغذی جہازوں کا توڑ نکالنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے کاغذی جہاز اور غبارے زیادہ عرصے تک صیہونی کالونیوں میں آگ بھڑکانے کا موجب نہیں بن سکتے۔
عبرانی اخبار’معاریو‘ سے بات کرتے ہوئے ایلیٹ شاکید نے کہا کہ آئندہ چند ہفتوں کے دوران ’فولادی ڈوم‘ سسٹم غزہ کی سرحد پر جگہ جگہ لگا دیا جائے گا اور یہ فلسطینی ’تخریب کاروں‘ کے کاغذی جہازوں سے پھیلائی گئی’دہشت گردی‘ کا کامیاب اور مؤثر حل ثابت ہوگا۔
انہوں نے دھمکی دی کہ اگر حماس غزہ میں حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بنی تو ہم ’شیلف ریجڈ‘ آپریشن 2‘ کا آغاز کردیں گے۔