مسجد خالد بن ولید کی تعمیر میں خاص پتھر سے’حجر سرم عین‘ کہا جاتا ہے استعمال کیا گیا۔ یہ پتھر مشرقی الخلیل کے علاقے بنی نعیم سے نکالا جاتا ہے۔ یہ پتھر اپنی مضبوطی اور خوبصورتی کی وجہ سے کافی شہرت رکھتا ہے۔ ایک مقامی سنگ تراش الحاج ابو حسن مرار نے ان پتھروں کی تراش خراش کے ذریعے ان کے خوبصورت فن پارے بنائے۔بنی نعیم میں اس پتھر کا ذخیرہ پانچ ہزار مربع میٹر کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔
صیہونیوں کی توسیع پسندی روکنے کی کوشش
الخلیل میں قائم کی گئی ’کریات اربع‘ صیہونی کالونی میں بڑی تعداد میں یہودی آباد کیے گئے ہیں۔ اس کے قریب مسجد کی تعمیر کا مقصد عبادت کے ساتھ ساتھÂ کریات اربع یہودی کالونی کی مسلسل توسیع کو روکنا تھا۔
مقامی شہری 77 سالہ الحاج حماد الرجبی نے مسجد خالد بن ولید کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ سنہ 1983ء میں علاقے کے بزرگ ایک جگہ جمع ہوئے اور انہوں نے صیہونی آباد کاروں کی توسیع پسندانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے مختلف تجاویز پیش کیں تاکہ اراضی کا سرقہ روکا جاسکے۔
الرجبی نے کہا کہ سنہ 1983ء میں فروری کے مہینے میں مسجد ابراہیمی میں نمازسے فارغ ہوئے تو ہمارے ساتھ فلسطینی محکمہ اوقاف کے ایک عہدیدار بھی موجود تھے۔ ہم نے صیہونیوں کی توسیع پسندی روکنے کے لیے الکسارہ کے مقام پر ایک مسجد کی تعمیر پر اتفاق کیا۔ مسجد کے لیے زمین حاصل کرنے اور تعمیراتی امور کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور یہ طے کیا کہ ایک ایسے بڑی مسجد تعمیر کی جائے جسے مسمار کرنا صیہونیوں کے لیے ممکن نہ ہو۔
مسجد کے پڑوسی 82 سالہ الحاج الجعبری کا کہنا ہے کہ صیہونی آباد کار مسجد پر اکثر حملے کرتے رہتے ہیں۔ یہ سلسلہ مسجد کی تعمیر کے پہلے دن سے جاری ہے مگر وہ آج تک مسجد کو بند کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
صیہونی آباد کاروں کا تشدد
مسجد کے ایک پرانے امام الشیخ نور دوفش نے کہا کہ مسجد خالد بن ولید اور اس کے نمازیوں پر حملے شروع دن سے جاری ہیں۔ صیہونی آباد کار مسجد اور نمازیوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
الشیخ دوفش نے کہا کہ ایک مرتبہ میں نماز عشاء کی امامت کرا رہا تھا کہ صیہونیوں کے ایک جرائم پیشہ گروپ نے مسجد پر حملہ کردیا۔ نمازیوں پر تشدد کیاÂ اور مسجد کے قالینوں اور فرنیچر کو آگ لگا کر جلا ڈالا۔ ہمیں نماز توڑنا پڑی۔ مسجد میں ہرطرف آگ اور دھواں پھیل چکے تھے۔ اس کے بعد مسجد کے تحفظ کے لیے ایک الگ سے کمیٹی قائم کی گئی۔ کمیٹی کےقیام کے بعد نمازیوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
مسجد خالد بن ولید الخلیل میں اب بھی اسلام کا ایک مضبوط قلعہ ہے اور یہ صیہونیوں کی توسیع پسندی کو روکے ہوئے ہے۔ صیہونی شرپسندوں کی نفرت کے باوجود مسجد سے صبح وشام اذان کی آواز بلند ہوتی ہے اور یہ سلسلہ انشاء اللہ تا قیامت جاری رہے گا۔