نوف نفیعات کا شمار فلسطین کی ان کم عمر شیہدوں میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی کے دوسرے عشرے میں اپنی جان قبلہ اوّل کے دفاع اور وطن عزیز کی آزادی پر قربان کی۔ کم عمری میں اس نے شہیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ فلسطینی قوم کی کم عمر ہیروئن کا خطاب حاصل کیا۔
نوف نفیعات کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی بیٹی کے اسکول سے واپسی کے انتظار میں تھی۔ وہ گھر سے یہ کہہ کر اسکول گئی کہ آج اسےاس کی تعلیم کی تکمیل کی سند مل رہی ہے اور وہ سند فراغت لے کرگھر لوٹے گی۔ دیگر اہل خانہ بھی بے تابی کے ساتھ اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس دوران اچانک یہ اطلاع ملی کہ نوف نفیعات کو اسرائیلی فوج نے گولیاں مار کر زخمی کیا ہے اور وہ شدید زخمی حالت میں اسپتال داخل ہیں۔
والدہ کا کہنا ہے کہ نوف نفیعات کا معمول تھا کہ وہ تمام اہل خانہ سے سب سے پہلے بیدار ہوتی۔ جمعرات یکم جون 2017ء کو حسب معمول سب سے پہلے بیدار ہوئی۔ نماز ادا کرنے کے بعد اس نے کہا کہ آج وہ اسکول سے اپنی سند لینے جائے گی۔
شہادت کی Â متلاشی
شہیدہ کی والدہ ام زید نے کہا کہ نوف نے اسے بتایا کہ وہ اسکول جا رہی ہے اور اسکول میں آج Â اسناد تقسیم کی جائیں گی۔ وہ تیزی کے ساتھ چلی گئی۔ کئی گھنٹے گذرنے کے بعد ہمیں بے تابی کے ساتھ اس کا انتظار تھا مگر وہ کسی اور ہی شہادت (ڈگری) کے انتظار میں تھیں۔
ام زید کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی کی عمر 15 سال تھی اور اس عمر کے بچوں میں شوق شہادت بہت کم ہوتا ہے۔ مگر نوف نفیعات آٹھویں جماعت کی طالبہ ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے قومی فرائض کی انجام دہی سے بھی بہ خوبی آگاہ تھیں۔ نوف نفیعات کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی قوم کی نئی نسل میں بھی صہیونی دشمن کے خلاف نفرت، انتقام، آزادی اور مقدسات کے دفاع کے لیے مر مٹنے کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔
نوف نفیعات کا مقام شہادت
گھر سے نکلنے کے بعد نوف اسکول گئی اور اسکول کے راستے میں اس نے کئی رکاوٹیں عبور کیں۔ وہ معبد کے مقام پر پہنچی تو اس کے قریب ہی ’مابو دوتان‘ کے مقام پر ایک یہودی کالونی کے نزدیک اسرائیلی فوج نے اس کا تعاقب شروع کردیا۔
صہیونی فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک فوٹیج میں دکھایا گیا ہے کہ نوف نفیعات اپنے پرس سے چاقو نکال کر لہرانے لگی۔ اس نے یہودی کالونی کی طرف سےآنے والی ایک بس سے اترنے والے اسرائیلی فوجی پر چاقو سے حملے کی کوشش کی مگر ابھی وہ اسرائیلی فوجی پر چاقو کا وار کرنا ہی چاہتی تھی کہ دور سے آنے والی ایک گولی نوف کے سینے میں پیوست ہوگئی۔ اس کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے اسے کئی مزید گولیاں بھی ماریں۔ جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوئی۔ زخمی ہونے کے بعد اسے ’ھلیل یافا‘ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں کچھ ہی دیر بعد وہ جام شہادت نوش کرگئی۔ اسرائیلی فوج نے شہیدہ کا جسد خاکی قبضے میں لے لیا اور پوسٹ مارٹم کے بعد اگلے روز اس کا جسد خاکی ورثاء کے حوالے کیا گیا۔
فوری طبی امداد میں تاخیر موت کا سبب
شہیدہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ اسے بیٹے کے فیصلے سے اتفاق ہے کہ اس نے اللہ کی راہ میں شہادت کا راستہ چنا، مگر اسے جس بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا اس پر وہ صہیونی فوج کو معاف نہیں کرے گی۔ ام زید کا کہنا ہے کہ نوف نفیعات کو زخمی کرنے کے بعد گھنٹوں سڑک پرپھینکا گیا اور بہت زیادہ خون بہہ جانے سے اور فوری طبی امداد نہ ملنے کے باعث وہ جام شہادت نوش کرگئی۔ اگر اسے فوری طور پرایمبولینس فراہم کی جاتی اور بروقت اسپتال پہنچایا جاتا تو نوف کی جان بچ سکتی تھی۔ صہیونی فوج کے اس طرز عمل سے لگتا ہے کہ قابض فوج دانستہ طور پر فلسطینیوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
نوف نفیعات کا پوسٹ مارٹم کرنے والے فلسطینی ڈاکٹر نجی نزال کا کہنا ہے کہ شہیدہ نوف کے جسم میں کئی پیٹ کے اطراف میں متعدد گولیاں لگیں۔ گولیاں لگنے کے بعد اس کے جسم سے بہت زیادہ خون نکل گیا جس کے نتیجے میں وہ جام شہادت نوش کرگئی۔
یعبد کی پہلی شہیدہ
نوف نفیعات کو یہ اعزازبھی حاصل ہے کہ وہ یعبد کی پہلی خاتون شہیدہ ہے۔ اس سے قبل یعبد قصبے سے فلسطینی مردوں اور نوجوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیےہیں مگر نوف نفیعات پہلی بچی ہیں جو اس قصبے Â میں شہید ہوئی ہیں۔
مذہب سے لگاؤ اور ذہانت
شہیدہ نوف نفیعات کے بھائیوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ نوف کو مذہب سے گہرا لگاؤ تھا۔ شہادت سے ایک رات قبل وہ اصرار کرکے مسجد میں نماز تراویح ادا کرنے گئی۔ وہ اپنی داری، پابند صوم وصلواۃ اور تلاوت قرآن پاک کی وجہ سے پورے خاندان میں مشہور تھی۔ شہادت سے چند روز قبل اس نے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کی بھی زیارت کا شرف حاصل کیا تھا۔
دینی داری کے ساتھ ساتھ نفیعات اپنی کمال ذہانت کی وجہ سے بھی پورے خاندان میں ممتاز مقام رکھتی تھی۔ کم عمری میں اس کی ذہانت اور اپنی تعلیم پر غیرمعمولی توجہ نے اس کی معاصر طالبات اور سہیلیوں میں بھی ممتاز مقام پر فائز کردیا تھا۔