نابلس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس کے نواحی علاقے بیت دجن کے رہائشی ایک نوجوان فلسطینی نابینا حافظ قرآن کا حفظ قرآن کا جذبہ بینائی رکھنے والوں کے لیے قابل تقلید ہی نہیں بلکہ باعث رشک بھی ہے۔
اگرچہ نوجوان یحییٰ ماجد ابو حلوان بصارت کی نعمت سے محروم ہے مگر وہ دل و دماغ کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔جس انہماک اور خشوع کے ساتھ اس نے کتاب اللہ کو حفظ کیا اور اس کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کیا ہے وہ جذبہ قابل رشک ہے۔ ماجد ابو حلوان نابلس کی جامعہ النجاح کا طالب علم ہے اور اس کے نہ صرف قرآن کریم مکمل حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے بلکہ اس کا اسکول میں تعلیمی کیریئر بھی انتہائی تاب ناک ہے۔
مشرقی نابلس کے بیت دجن قصبے میں پیدا ہونے والے ماجد ابوحلوان نے جنوبی شہر بیت لحم میں خصوصی اور نابینا بچوں کی تعلیم کے لیے قائم پرائمری اسکول سے تعلیم حاصل کی۔ اس نے پرائمری اسکول کی آخری کلاس کے سالانہ امتحان میں 90.9 فی صد نمبر لے کر سب کو حیران کردیا۔
ابتدائی تعلیم بیت لحم سے حاصل کرنے کے بعد ابو حلوان نے نابلس میں جامعہ النجاح کے زیرانتظام الشریعہ اسکول اینڈ کالج میں داخلہ لیا، جہاں سے اس نے اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن کریم بھی حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی۔
ابوحلوان نے کہا کہ بصارت سے محرومی اس کے حفظ قرآن میں رکاوٹ نہیں بنی، وہ جیسے جیسے کتاب اللہ کو یاد کرتا گیا اس کی قوت حافظہ مزید بہتر ہوگئی۔ ابو دجن کا کہنا ہے کہ اس کے اقارب اور دوست کہتے تھے کہ اس کے لیے تعلیم حاصل کرنا اور قرآن کریم حفظ کرنا ایک چیلنج ہوگا مگر اس نے اس چیلنج کو آسانی کے ساتھ مکمل کیا ہے۔
حفظ قرآن کریم کا سفر
ابو حلوان نے کہا کہ قرآن سے میری محبت کتاب اللہ سے میرے تعلق کی بنیاد بنی۔ میں نابینا ہونے کے باوجود کم عمری ہی میں قرآن کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ دوسری جماعت سے میں نے قرآن پاک حفظ کرنا شروع کردیا تھا۔ اس دوران میں ایک حفظ قرآن کے مدرسے میں بھی داخل ہوا۔ اس وقت میں چار سپارے حفط کرچکا تھا۔ بعض مشکلات کی وجہ سے لگا کہ قرآن کریم حفظ کرنا مشکل ہوگا مگر جلد ہی وہ تمام مشکلات ختم ہوتی چلی گئیں۔
میٹرک تک میں قرآن پاک نہ صرف مکمل طور پر حفظ کرچکا تھا بلکہ اس کی منزل بھی اچھی طرح یاد کرلی تھی۔ اس کے بعد میں نے النجاح نیشنل یونیورسٹی کے الشریعہ کالج میں داخلہ لیا اور اصول الدین کے شعبے میں پڑھائی کا آغاز کیا۔ کالج کے عرصے میں قرآن سے میرا تعلق اور بھی مضبوط ہوگیا اور میں کتاب اللہ سے عشق کی حد تک محبت کرنے گا۔
ابو حلوان نے بتایا کہ جب مدرسے کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ حفظ قرآن مکمل کرنے والوں کے اعزاز میں ایک تقریب منعقد کرنا چاہتے ہیں، اس وقت میرا حفظ مکمل نہیں ہوا تھا۔ میں نے تہیہ کیا کہ آئندہ سال کی اس تقریب میں میرا نام بھی شامل ہوگا۔ اللہ نے مجھےتوفیق دی اور میں اگلے سال قرآن کریم حفظ کرنے والے حفاظ کرام کی صف میں شامل ہوچکا تھا۔
حوصلہ اور ہمت افزائی
ابو حلوان نے بتایا کہ اس نے عملی طور پر صرف آٹھ ماہ میں قرآن کریم حفظ کیا ہے۔ تمام تر مشکلات کے باوجود اتنے کم وقت میں اس کے لیے قرآن کریم یاد کرنا ایک چیلنج تھا۔
اس کا کہنا ہے کہ میں طویل ایام تک قرآن کریم کے تین تین صفحات یاد کرتا اور سناتا رہا۔ میں یاد کیے گئے قرآن پاک کے حصے کو محفوظ کرنا چاہتا تھا اور اس میں بھی مجھے کامیابی حاصل ہوئی۔
ابو حلوان کا کہنا ہے کہ قرآن کریم یاد کرنا جتنا مشکل ہے یاد رکھنا اس سے زیادہ مشکل ہے۔ کتاب اللہ کو یاد کرنا بہت بڑی سعادت ہے اور یہ کام عزیمت ، بلند حوصلے اور ہمت کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایسا سازگار ماحول بھی درکار ہے جس میں آپ کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کرنے والے لوگ موجود ہوں۔ مجھے بھی ادارے کے منتظمین کی جانب سے قدم قدم پر حوصلہ اور ہمت افزائی ملتی رہی۔ میرے ساتھی اوردوست بھی میری ڈھارس بندھاتے۔ اساتذہ اور اقارب نے بھی کبھی حوصلہ شکنی نہیں کی۔
حفظ قرآن کے طلباء کے لیے اپنے پیغام میں ابو حلوان نے کہا کہ قرآن کریم حفظ کرنا کانٹوں پر چلنے کے مترادف ہے۔ قرآن پاک یاد کرنے والے تمام دوستوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنی نیت اور ارادے کو صاف رکھیں، عزیمت کے لیے تیار رہیں۔ اگر آپ دن میں صرف ایک صفحہ یا ایک رکوع ہی کیوں نہیں یاد کرتے آپ کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ اسی طرح آپ قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔