رپورٹ میں غرب اردن اور وادی اردن میں فلسطینی کاشت کاروں اور مقامی دیہاتی شہریوں کے مویشیوں کی لوٹ مار پر روشنی ڈالی ہے۔
مقامی شہریوں کا کہنا ہے کہ ان کے چھینے گئے مویشی اور زرعی آلات انہیں واپس کرنے کے لیے صہیونی حکام کی طرف سے شرمناک نوعیت کی شرائط عائد کی جاتی ہیں۔ جب فلسطینی صہیونی انتظامیہ کی شرائط ماننے سے انکار کردیتے ہیں تو ان کے مویشیوں اور زرعی آلات کو بازاروں میں نیلام عام میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح فلسطینی شہری اپنے قیمتی جانوروں اور زرعی آلات جن میں ٹریکٹر اور فصلوں کی کٹائی اور صفائی کے لیے استعمال ہونے والی مشینری شامل ہے۔
ناقابل تلافی نقصانات
وادی اردن فلسطینی کاشت کاروں اور مال مویشی پالنے والے فلسطینیوں کا مرکز کہلاتا ہے۔یہی علاقہ صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی کا مسلسل سامنا کرتا ہے۔ فلسطینی شہری ہی نہیں بلکہ ان کے مال مویشی اور زرعی آلات بھی صہیونی ریاستی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہتے۔
وادی المالح کے مقامی فلسطینی یونین کونسل کے چیئرمین وار سرکردہ سماجی کارکن عارف دراغمہ نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے کچھ عرصے سے اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے مویشیوں اور زرعی آلات کی لوٹ مار کو معمول بنا رکھا ہے۔ فلسطینی مویشیوں سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ فصلوں اور کاشت کاری کے لیے استعمال ہونے والے آلات سے بھی محروم کردیے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کو غیرمعمولی اور ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں دراغمہ نے بتایا کہ وادی اردن کے باشندے پچھلے چار سال سے اپنے مال مویشی اور زرعی آلات سے محرومی کی شکایت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ صہیونی انتظامیہ کے پاس فلسطینیوں کے مویشیوں کو قبضے میں لینے اور زرعی آلات چھیننے کا کوئی آئینی اور قانونی جواز نہیں ہے۔ ایسا صرف فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ فلسطینیوں کے زرعی آلات، فصلات،سبزیاں،پھل اور مال مویشی تک غیر محفوظ ہیں۔
صہیونی انتظامیہ کی طرف سے عموما یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ فلسطینیوں کے مال مویشی غرب اردن اور وادی اردن کے گرین زون میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں اسرائیلی فوج مشقوں میں مصروف رہتی ہے مگر صہیونی انتظامیہ فلسطینیوں کے مال مویشی کے اس علاقے میں داخل ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دے سکے ہیں۔
دراغمہ نے بتایا کہ پچھلے چین سال کے دوران صہیونی فوجیوں نے فلسطینیوں کی 80 گائیں، 25 گدھے، 100 بکریاں، 30 ٹریکٹر، 11 ٹرالیاں اور کھیتوں کو پانی فراہم کرنے کے لیے رکھےگئے 30 ٹینکر قبضے میں لیے اوران میں سے ایک چیز بھی ان کے مالکان کو واپس نہیں کی گئی۔ فصلات اس کے علاوہ ہیں جنہیں غاصبانہ حربوں کے دوران تلف کیا گیا۔
بھاری جرمانے
مقامی فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج کی طرف سے فلسطینی شہری دوہری ظلم کا سامنا کررہے ہیں۔ ایک طرف فلسطینیوں کی املاک لوٹی جاتی ہیں۔ فصلیں تباہ کی جاتی ہیں۔ مویشی لوٹ لیے جاتے اور کاشت کاری کے آلات قبضے میں لے لیے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی شہریوں ہی پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پرصہیونی فوج کی جانب سے قبضے میں لیے گئے ایک گدھے کی واپسی کے بدلے 2000 شیکل جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی بسرکرنے والے شہریوں کے لیے یہ ناقابل ادائیگی جرمانہ ہے۔
عارف دراغمہ خود بھی صہیونیوں کی اسی زیادتی کا شکار رہے ہیں۔ صہیونی عدالت نے ان کی ایک گائے کی واپسی کے بدلے میں انہیں 4000 شیکل جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔
فلسطینی اتھارٹی کی غفلت
فلسطینی شہریوں کی املاک، مال مویشی، فصلوں اور زرعی آلات کی لوٹ مار کے صہیونی حربے کی روک تھام میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے کوئی ٹھوس اور موثر قدم نہیں اٹھایا جاتا۔
فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ آئینی اور قانونی طورپر فلسطینی اتھارٹی ان کے غصب شدہ مال مویشی اور دیگرسامان کی صہیونی فوج سے واپسی کی پابند ہے مگر فلسطینی انتظامیہ نے آج تک وادی اردن کے مفلوک الحال فلسطینیوں کے حقوق کے لیے کوئی آواز نہیں اٹھائی۔ یوں فلسطینی اتھارٹی نے وادی اردن کے شہریوں کو ایک اعتبار سے صہیونیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ رکھا ہے۔
مقامی فلسطینی شہری محمد ابو عواد نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ زرعی ٹریکٹر وادی اردن کے شہریوں کی بنیادی ضرورت ہے مگر صہیونی فوج ایک سازش کے تحت فلسطینیوں کے دیگر کاشت کاری آلات کے ساتھ ٹریکٹر بھی ضبط کر لیتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے فلسطینیوں کے زرعی آلات کی واپسی کے لیے کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی انتظامیہ فلسطینی شہریوں پر بھاری جرمانے بھی عائد کرتی ہے۔ فلسطینی شہر اپنے سامان کی واپسی کے بدلے میں جرمانے ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ رام اللہ انتظامیہ کی دیگر ذمہ داریوں میں ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے مغصوبہ سامان کی واپسی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں۔