مسجد ابراہیمی حرمتی روز کا معمول
مسجد ابراہیمی کے پہلو میں کئی جلیل القدرانبیاء کرام آسودہ خاک ہیں۔ ان میں سیدنا یعقوب علیہ السلام اور ان کی اہلیہ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اہلیہ سارہ، سیدنا یوسف علیہ السلام اور کئی دیگر بزرگ ہستیاں آسوہ خاک ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی طرح یہودی مسجد ابراہیمی پر بھی اپنی مذہبی اجارہ داری کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سازش کے تحت ناپاک صہیونیوں نے مسجد ابراہیم جسے حرم ابراہیمی بھی کہا جاتا ہے کو زمانی اور مکانی اعتبار سے مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔
مسجد ابراہیمی کئی عشروں سے ناپاک یہودیوں کے غاصبانہ تسلط میں ہے۔ صہیونی آباد کار باقاعدگی کے ساتھ مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے یہاں آتے ہیں۔ مگر عبادت محض ایک بہانہ ہے۔ دراصل یہودی اس مقدس مقام کے بے توہین آمیز انداز میں بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں اس سے یہودیوں کی منافقت اور بدنیتی عیاں ہوتی ہے۔
عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ یہودیوں نے مسجد ابراہیمی کو انتہا پسندوں، فوجیوں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کے لیے مباح قرار دے رکھا ہے۔ یہودی بلا روک ٹوک یہاں داخل ہوتے۔
تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسومات ادا کرتے، مسجد میں گھس کر سگریٹ اور شراب نوشی کرتے، رقص و سرود کی محافل منعقد کرتے، موسیقی اور ڈھول باجے بجاتے، شادیوں اور ختنوں تک کی تقریبات یہاں منعقد کرکے مقدس مقام کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ یہودی شرپسند مسجد ابراہیمی میں داخل ہوتے وقت جوتے اتارنا بھی گورا نہیں کرتے۔
یہودیوں کے زیرتسلط مقامات
مقامی فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ صہیونی آباد کاروں نے مسجد ابراہیمی کے ایک بڑے حصے پر تسلط جما رکھا ہے۔ فلسطینیوں کے لیے نماز کی ادائیگی کی جگہ انتہائی محدود ہے مگر ہفتے کے روز اوریہودیوں کی تلمودی مذہبی عیدوں کے مواقع پر یہودی پوری مسجد پر قبضہ جما لیتے ہیں۔
مسجد ابراہیمی کے کئی اہم تاریخی حصے ہیں جو مقدس ہستیوں اور بزرگان دین کے ناموں سے منسوب ہیں۔ مقام یعقوب، مقام ابراہیم، مقام یوسف مسجد ابراہیمی کے نصف حصے پرمشتمل ہیں۔ان مقامات پر فلسطینیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ مقام اسحاق مسجد کے محراب سے متصل ہے۔ یہ جگہ حضرت اسحاق علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے۔ یہیں پر حضرت اسحاق اور ان کی اہلیہ آسودہ خاک ہیں۔ مقام اسحاق کے علاوہ الجاولی مسجد مسلمانوں کی نماز کے لیے مختص ہیں۔ مگر ہفتے کے روز اور یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر فلسطینی مسلمانوں کو یہاں پر جانے کی اجازت بھی نہیں دی جاتی۔
مسجد ابراہیمی کے ڈائریکٹر الشیخ خفظی ابو اسنینہ نے بتایا کہ اسرائیلی حکومت نے مسجد ابراہیمی کو صہیونی شرپسندوں کے لیے مباح قرار دے رکھا ہے۔ کسی بھی چھوٹے بڑے مذہبی موقع پر پوری مسجد سیل کرکے فلسطینیوں کو وہاں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سنہ 1994ء میں جب ایک صہیونی دہشت گرد نے مسجد میں گھس کر نماز فجر میں مصروف مسلمانوں پر اندھا دھند گولیاں برسائیں اور 29 نمازیوں کو شہید کیا تو اسرائیل نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ’شمغار‘ نامی ایک کمیشن تشکیل دیا۔ یہ کمیشن دراصل فلسطینی نمازیوں کے قتل عام کی تحقیقات کے لیے نہیں بلکہ مسجد کی یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کے لیے تھا۔ اسی کمیشن نے مسجد کا ایک بڑا حصہ یہودیوں کے حوالے کردیا۔
الشیخ اسنینہ نے کہا کہ یہودی مذہبی تہواروں کی آڑ میں مسجد ابراہیمی کی بے حرمتی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر ہم مسلمان مسجد میں نماز، ذکرو اذکار، اسلامی ثقافتی، سرگرمیاں، دروس قرآن اور دروس احادیث کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو مسجد میں آنے سے روکنے کے لیے طاقت کے مکروہ ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے۔ نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں فلسطینیوں کو مسجد ابراہیمی میں عبادت کی ادائیگی کے لیے آنے سے روک دیا جاتا ہے۔
مسجد ابراہیمی کا دفاع کیسے ممکن؟
الخلیل شہر کے فلسطینی مفتی الشیخ ماھر شوکت مسودی کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کی طرح مسجد ابراہیمی کی حفاظت کی ذمہ داری بھی پوری مسلم امہ پر عائد ہوتی ہے۔ ہم مقامی فلسطینی شہریوں Â سے یہی کہتے ہیں کہ وہ مسجد ابراہیمی کو تنہا نہ چھوڑیں۔ جو پانچوں نمازوں میں شریک ہوسکتے ہیں وہ پانچوں میں شرکت کریں، جو دن میں ایک بار آسکتا ہے وہ ضرور دن میں مسجد ابراہیمی میں حاضری دے اور جو ہفتے میں یہاں ایک بار آسکتا ہے وہ بھی حسب موقع مسجد میں پہنچے تاکہ مسجد ابراہیمی کی تنہائی کا احساس نہ ہو اور صہیونی غاصبوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ فلسطینی مسلمان مسجد ابراہیمی سے ناطہ نہیں توڑیں گے۔
الشیخ مسودی کا کہنا ہے کہ مسجد ابراہیمی کو خالی چھوڑنا یہودیوں کو اس پر قبضہ جمانے کا موقع فراہم کرنا اور اسے یہودیت کے نرغے میں دینے کے مترادف ہے۔ خدا نخواستہ مسلمانوں نے مسجد ابراہیمی کو تنہا چھوڑ دیا تو صہیونی شرپسند اسے معبد میں تبدیل کرسکتے ہیں۔