بہ حیثیت مجموعی فلسطینی صدر اسرائیلی زندانوں میں قید اور رہائی پانے والے فلسطینیوں کے ایشوز کو نظر انداز کررہے ہیں۔ دو سال قبل انہوں نے وزارت اسیران ختم کرتے ہوئے اسیران کو ایک بے اختیار سے امور اسیران محکمے کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ حالانکہ یہ مسئلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں تک فلسطینی اسیران کا ایشو سنہ 1993ء میں طے پائے اوسلو معاہدے میں بھی اٹھایا گیا۔ اسرائیل نے یقین دلایا کہ وہ معاہدے سے پہلے کے تمام فلسطینی قیدیوں کو رہا کردے گا۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے گذشتہ کئی برسوں سے اسیران کے معاملے کو دانستہ طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ حال ہی میں انہوں نے سنہ 2011ء کے معاہدہ اسیران کے تحت رہائی پانے والے 270 اسیران کے اہل خانہ کو ملنے والی امداد بند کردی تھی۔
کلب برائے اسیران
حال ہی میں یہ خبر سامنے آئی کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اسیران کی بہبود کے لیے کام کرنے والے ادارے’کلب برائے اسیران‘ کی امداد بند کردی ہے۔ فلسطینی اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والا یہ نجی نہیں بلکہ سرکاری ادارہ ہے۔ کلب برائے اسیران کی فنڈنگ بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ محمود عباس سرے سے اس ادارے ہی کو بند کرنا چاہتے ہیں۔
صدر عباس اور ان کی اتھارٹی کی طرف سے کلب برائے اسیران کی امداد کی بندش کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آسکی۔ فلسطینی اتھارٹی کے جس جس عہدیدار سے اس حوالے سے بات کی گئی، اسی نے کوئی رائے دینے سے انکار کیا۔ ایسے لگتا ہے کہ محمود عباس نہ صرف رہا ہوئے فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ اسرائیلی جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں اٹھانے والوں کو بھی اپنی انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے انہیں قربانی کا بکرا بنا رہے ہیں۔
کلب برائے اسیران کا کہنا ہے کہ فلسطینی تھارٹی کے محکمہ خزانہ فنڈز کی بندش کی وجہ نہیں بتائی حالانکہ اس ادارے کے کئی شہروں میں مراکز قائم ہیں اور ان میں بڑی تعداد میں شہری ملازمت کرتے ہیں۔ فلسطینی صدر کے اس اقدام سے کلب برائے اسیران کی قیدیوں کے حوالے سے خدمات متاثر ہوسکتی ہیں بلکہ ان سیکڑوں ملازمین کی روزی روٹی بھی بند ہوسکتی ہے جو عرصہ 25 سال سے اس ادارے کے ساتھ وابستہ ہیں۔
اسیران میڈیا سینٹر کے چیئرمین عبدالرحمان شدید نے کہا کہ اسیران کلب کی امداد بند کرنے سے کئی سوالیہ نشان ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کی شخصیت بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
عبدالرحمان شدید نے کلب برائے اسیران کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے ملازمین کے فنڈز بند کرنے کے اتھارٹی کے فیصلے کو انتہائی افسوسناک اور شرمناک قراردیا۔
اسباب ومحرکات
فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابو عامر کا کہنا ہے کہ کلب برائے اسیران کی امداد کی بندش کے دو اسباب ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس ادارے نے رواں سال اپریل میں اسرائیلی جیلوں میں قید سیکڑوں فلسطینی اسیران کی اجتماعی بھوک ہڑتال کی حمایت کی تھی۔ یہ ہڑتال تحریک فتح کے مرکزی اسیر رہ نما مروان البرغوثی کی زیرقیادت شروع ہوئی۔ دوسرا سبب یہ کہ امریکا کے دباؤکے بعد جب فلسطینی اتھارٹی نے 277 فلسطینی اسیران کے اہل خانہ کو ملنے والی امداد بند کی تو اس ادارے کی طرف سے اس کی مخالفت کی گئی تھی۔
تجزیہ نگار ایمن الرفاتی کا کہنا ہے کہ کلب برائے اسیران کی امداد کی بندش اسرائیل اور امریکا کو خوش کرنے کی کوشش ہے۔ یہ دونوں ملک فلسطینی اسیران کی مالی مدد کو ’دہشت گردوں کی معاونت‘ کے مترادف قرار دے کر فلسطینی اتھارٹی سے اس پر پاپندی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس نے اسی دباؤ کے بعد دو ماہ قبل سیکڑوں اسیران کی مالی امداد بند کردی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ محمود عباس موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیرمعمولی دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن بات چیت کی بحالی کے لیے تیار ہونے کے ساتھ ساتھ ہر وہ کام کیے جا رہے ہیں جس کی ہدایت واشنگٹن سرکاری کی طرف سے دی جاتی ہے۔