غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اندرون اور بیرون فلسطین مخالفین کوچُن چُن کر شہید کرنا صہیونی ریاست کی ازلی فطرت ہے۔ فلسطینی شخصیات کو شہید کرنے کے لیے صہیونی ریاست کے جلاد کئی طرح کے مکروہ حربے استعمال کرتے ہیں۔ Â جنگی جہازوں اور ڈرون طیاروں کی مدد سے مخالفین کو نشانہ بنانے کے کئی دوسرے خفیہ طریقوں سے بھی شہید کیا جاتا ہے۔
ایسے پراسرار اور خفیہ طریقوں سے مخالفین بالخصوص فلسطینی مجاھدین آزادی کو نشانہ بنانے کا تازہ واقعہ جمعہ 24 مارچ 2017ء کو غزہ کی پٹی میں پیش آیا جب قابض صہیونی دشمن نے اپنے ایجنٹوں اور اجرتی قاتلوں کی مدد سے فلسطینی مزاحمتی کمانڈر مازن فقہا کو گولیاں مار کر شہید کردیا۔شہید کمانڈر مازن فقہا Â فلسطینی قوم کے ہیرو ہیں۔ انہوں نے الشیخ سلاح شحادہ کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے شمالی فلسطین کے صفد شہر میں ایک بھرپور وار کرکے 9 صہیونیوں کو جنہم واصل کرتے ہوئے کئی کو شدید زخمی کیا۔
صہیونیوں کے قتل کے الزام میں اسرائیلی فوج نے مازن فقہاء کو حراست میں لے کر اس کے خلاف مقدمہ چلایا ارو اسے 9 بار عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ مازن فقہا کا تعلق غرب اردن کے شمالی شہر جنین سے تھا۔ سنہ 2011ء میں حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے تحت مازن فقہا کو رہا اس شرط پر رہا کیا گیا تھا کہ وہ مغربی کنارے کے بجائے غزہ میں رہیں گے۔
یوں وہ 2011ء کے بعد سے غزہ کی پٹی ہی میں مقیم رہے۔ جیل سے رہائی کے بعد بھی مازن تحریک آزادی فلسطین کے ہراول دستے کا حصہ رہے۔ گذشتہ روز وہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے گھر کو لوٹ رہے کہ نامعلوم دہشت گردوں نے اسنائپر سے انہیں گولیاں مار کر شہید کردیا۔
خون میں لت پت مازن فقہا کا جسد خاکی اسپتال منتقل کیا گیا۔ ان کے سر اور جسم کے بالائی حصے میں چھ گولیاں ماری گئی تھیں۔ مجرم کارروائی کے بعد کامیابی سے موقع واردات سے فرار ہوگئے تھے۔
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور جماعت کے عسکری ونگ عزالدین القسام شہید بریگیڈ کی طرف سے مازن فقہا کی شہادت کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ اس جرم کا براہ راست قصور وار صہیونی ریاست اور اس کے خفیہ اداروں کو قرار دیا۔
موساد کے فنگر پرنٹس
فلسطینی شخصیات اور اسرائیل مخالف اہم رہنماؤں کو خاموشی کے ساتھ جان سے مار دینے کی صہیونی پالیسی بہت پرانی لے۔ اس کی تازہ مثال مازن فقہا کی شہادت ہے مگر یہ سنہ 1974ء سے جاری ایسے خفیہ حملوں کی کڑی ہے۔ سنہ 2016ء میں القسام کے تیونسی انجینیر محمد محمود الزواری کو تیونس میں ایسے ہی خفیہ طریقے سے شہید کیا گیا۔ حماس اور القسام Â بریگیڈ نے الزواری کی شہادت کی ذمہ داری صہیونی خفیہ ادارے موساد پرعائد کی۔ سنہ 1974ء کو اسرائیل کے اسی بدنام زمانہ جاسوس ادارے’موساد’ نے بیروت میں قاتلانہ حملوں میں تین مزاحمتی رہنماؤں کو شہید کردیا تھا۔
فلسطینی عسکری امور کے تجزیہ نگار میجر جنرل واصف عریقات کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینی مجاھدین کے خلاف زمان ومکان کی قید سے آزاد ہو کرآپریشن کا عائد ہے۔ موساد اور اس کے ایجنٹ ’اسنائپر‘ کی مدد سے فلسطینی مجاھدین کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے۔ عالمی سطح پر اس طرح کی قاتلانہ وارداتوں شدید رد عمل کے باوجود موساد اپنے اس مجرمانہ حربے سے باز نہیں آتی۔
واصف عریقات کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست بغیر پائلٹ ڈرون طیاروں کے ذریعے نشانہ بنانے سے گریز کررہی ہے کیونکہ ڈرون طیاروں کے حملوں میں عام شہریوں کا جانی نقصان ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ اگرچہ ماضی میں اسرائیل نے اپنے اہدف کو نشانہ بناتے ہوئے کبھی بے گناہ شہریوں کے مارے جانے خیال نہیں کیا۔ عالمی سطح پر تنقید سے بچنے اور عرب ممالک سے تعلقات بڑھانے کے لیے ڈرون کارروائیوں کو کم کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس تیونس میں محمد الزواری کی قاتلانہ حملے میں شہادت اور چوبیس مارچ کو غزہ کی پٹی میں حماس کے کمانڈر مازن فقہا کی اسنائپر کی شہادت کے بعد اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ صہیونی ریاست اپنے مخالفین کو نشان بنانے کی پالیسی اپنائی ہے۔
صہیونی ریاست نے اپنے جاسوسوں کی مدد سے حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی شخصیات کو شہید کرنے کے لیے اسنائپر کا استعمال شروع کیا ہے۔ لگتا ہے کہ موساد نے براہ راست فلسطینی مجاھدین کو نشانہ بنانے کے بجائے اپنے ایجنٹوں کا سہارا لینے اور ’خاموش ٹارگٹ کلنگ‘ کی مجرمانہ پالیسی اپنا لی ہے۔
ایک دوسرے عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر یوسف شرقاوی کا کہنا ہے کہ ’اسنائپر‘ سے اہداف کو نشانہ بنا انتہائی خطرناک پالیسی ہے۔ اس کا مقصد قاتلانہ حملوں کا روایتی طریقہ کار اپنانے کے بجائے ایسا مشکل طرز عمل اپنانا ہے تاکہ حملہ آوروں کی شناخت ممکن نہ رہے۔
مازن فقہا کو کیوں شہید کیا گیا؟
مازن فقہا کو ایک ایسے وقت میں خفیہ طریقے سے شہید کیا گیا جب صہیونی ریاست کی موجودہ حکومت، فوج اور اس کے انٹیلی جنس ادارے Â اسرائیلی اسٹیٹ کنٹرولر کی حالیہ رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد سخت خفت اور ندامت کا سامنا کررہے ہیں۔
اسٹیٹ کنٹرولر کی رپورٹ میں واشگاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2014ء کو غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ میں صہیونی ریاست کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا۔ چونکہ اس جنگ میں اسرائیل اپنے مقاصد اور اہداف میں کامیاب ہونے کے بجائے غزہ میں عام شہریوں پر بمباری کرکے بین الاقوامی تنقید کا سامنا کر رہا ہے۔ نیز اس جنگ میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے صہیونی فوج کو جتنا جانی نقصان پہنچایا اس سے صہیونی فوج کی جنگی حکمت عملی، انٹیلی جنس اداروں کی ناقص معلومات اور حکومت کی ناکام حکمت عملی کی عکاسی ہوتی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار واصف عریقات کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اسرائیلی حکومت نے عوامی اور سیاسی حلقوں کی طرف سے تنقید سے بچنے اور غزہ جنگ میں ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے مازن عباس کو حملے کا نشانہ بنایا ہو۔ صہیونی حکومت یہودی کا اعتماد بحال کرنے Â اور تنقید سے توجہ ہٹانے کے لیے مازن کو نشانہ بنایا۔
مازن کی شہادت سے صہیونی حکومت نے فلسطینی مجاھدین کو چاہے وہ اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ موساد کے ایجنٹ انہی کے آس پاس ہوسکتے ہیں۔