فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق صہیونی فوج کی طرف سے بیت المقدس کے 40 سال سے کم عمر کے افراد کو مسجد اقصیٰ میں نمازوں بالخصوص تراویح اور جمعہ کے اجتماعات میں شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی۔ فلسطینی نوجوانوں نے اس کا بھی توڑ نکالا ہے۔ سوشل میڈیا پر فلسطینی نوجوان ایک دوسرے کو دعوت دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’آؤ قبلہ اوّل کی راہ میں حائل دیوار پھلانگ کر وہاں پہنچیں اور نمازیں ادا کریں‘۔
فلسطینی نوجوانوں کی جانب سے یہ ایک بڑا چیلنج ہے اور فلسطینی اس چیلنج میں اپنے طور پرکامیاب رہتےہیں۔ وہ چیک پوسٹوں سے گذرنے اور واپس کیے جانے کےخدشے کے پیش نظر دیوار کی دونوں اطراف لکڑی کی سیڑھی کھڑی کرتے اور وہاں سے با آسانی گذر جاتے ہیں۔
غرب اردن کے شہر نابلس سے تعلق رکھنے والے نوجوان احمد ابو فلاح نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ جب اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی راہ میں دیوار فاصل تعمیرکردی تو ہم نے اس کا بھی توڑ نکال لیا۔ فلسطینی نوجوان سیڑھیوں کی مدد سے دیوار عبور کرکے دوسری طرف جاتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ سیڑھی کی مدد سے دیوار پھلانگنا کتنا مشکل ہے تو Â احمد ابو فلاح کا کہنا تھا کہ یہ کوئی بھی مشکل نہیں بلکہ بہت آسان کام ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ابو فلاح کا کہنا تھا کہ جب ہمیں دیوار پھلانگنا ہو تو ہم پہلے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اس جگہ کے قریب کوئی اسرائیلی فوج یا پولیس کی گشتی پارٹی تو نہیں۔ اگر فوج یا پولیس قریب ہو تو اس کے وہاں سے جانے کا انتظار کرتے ہیں۔ بعض اوقات رسی کی مدد سے بھی دیوار پھلانگ کر قبلہ اوّل میں پہنچتے ہیں۔
ابو فلاح نے کہا کہ دیوار پھلانگنے کے لیے مہارت کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات نوجوان جلد بازی اور بے احتیاطی میں دیوار پھلانگتے ہوئے اپنی ہڈیا توڑ بیٹھتے ہیں۔
خطرات سے بھرپور چیلنج
رواں ماہ صیام کے پہلے جمعہ کو اسرائیلی فوج نے بیت المقدس اور مقبوضہ غرب اردن کے شہریوں میں غیراعلانیہ کرفیو لگا دیا تاکہ فلسطینی نوجوان مسجد اقصیٰ تک نہ پہنچ پائیں۔ نام نہاد سیکیورٹی الرٹ کی آڑ میں بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو جانے والے تمام راستے سیل کردیے تھے۔ ایسے میں غرب اردن سے تعلق رکھنے والے فلسطینی مسلمان نوجوانوں کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ صہیونی ریاست کی طرف سے کھڑی کی گئی دیوار فاصل کو رسیوں اور سیڑھیوں کی مدد سے عبور کرنے کا چیلنج قبول کریں۔
فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ دیوار پھلانگنا اگرچہ کوئی مشکل کام نہیں مگر غرب اردن سے مسجد اقصیٰ تک کا راستہ خطرات سے پُر ہے۔ فلسطینی نوجوان اپنی جانوں پر کھیل کر مسجد اقصیٰ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صہیونی فوج اور پولیس ان کا تعاقب کرتے ہوئے ان پر گولیاں چلاتی ہے۔ کئی بار فلسطینی دیوار عبور کرتے ہوئے گولیاں لگنے سے شہید اور زخمی بھی ہوتے رہے ہیں۔ صہیونی فوج دیوار فاصل پھلانگنے والے نوجوانوں کو حراست میں بھی لیتی ہے۔ ماہ صیام کے موقع پر اسرائیلی فوج اورپولیس چوبیس گھنٹے کی بنیاد پر دیوار فاصل کے گرد گھومتی رہتی ہے۔
مقامی فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے صرف دیوار ہی کھڑی نہیں کی بلکہ فلسطینیوں کودیوار پار کرنے سے روکنے کے لیے جگہ جگہ اس پر کیمرے بھی نصب ہیں۔
بعض مقامات پر دیوار فاصل کی اونچائی 12 میٹر تک ہے۔ اتنی بلند دیوار کو سیڑھی یا رسی کی مدد سے عبور کرنا جان پر کھیلنے کے مترادف ہے۔
قلندیا پناہ گزین کیمپ کے رہائشی نوجوان محمود الحسینی کا کہنا ہے کہ بہت سے نوجوان دیوار فاصل پھلانگنے کی کوشش کے دوران یا تو اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے زخمی ہوتے ہیں یا گر کر زخمی ہوتے ہیں۔
یہودیت کےخلاف مزاحمت
رمضان المبارک کے پہلے جمعہ کو نماز فجرہی سے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے اطراف میں ہزاروں کی تعداد میں اسرائیلی فوج اور پولیس اہلکار تعینات کردیے گئے تھے۔ کثیر تعداد میں فوج کی تعیناتی کا مقصد صاف ظاہر ہے۔ صہیونی فوج غرب اردن کے شہریوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کے لیے جانے سے سختی سے روکنے کی کوشش کرتی رہی۔ دیوار فاصل کے دونوں اطراف میں پیدل اور گاڑیوں پر سوار اسرائیلی گشتی پارٹیاں نماز فجر سے گردش کرنا شروع ہوگئی تھیں۔
نابلس کے فلسطینی نوجوان معتز سلامہ کا کہنا ہے کہ Â ایک طرف مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائیگی کا اجر عظیم اور دوسری طرف اس مقام تک رسائی کی راہ میں حائل دیوار اور خطرات ہیں۔ یہ خطرات اس اجر کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی نوجوانوں کا دیوار فاصل پھلانگ کر قبلہ اوّل تک پہنچنے کی کوشش کرنا اس مقدس مقام کو یہودیانے کی سازشوں کے خلاف مزاحمت ہی کی ایک شکل ہے۔ صہیونی ریاست کو یہی بات بہت ناگوار گذرتی ہے کہ فلسطینی نوجوان قبلہ اوّل سے اتنا عشق کیوں کرتے ہیں اور وہاں پر نماز کی ادائیگی کا جنون کی حد تک کیوں شوق رکھتے ہیں۔