غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) دنیا بھر میں مظلوم فلسطینی قوم سے ہمدردی کا جذبہ رکھنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ فلسطینیوں کے لیے بے لوث خدمات انجام دینے والوں میں ایک نام برطانوی دوشیزہ ’لبابہ‘ کا بھی ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطین کے علاقےغزہ کی پٹی میں حق واپسی کے لیے جاری تحریک کے دوران اسرائیلی فوج کے وحشیانہ تشدد سے درجنوں فلسطینی شہید ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے وحشیانہ تشدد اور اس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینیوں کے زخمی ہونے کے واقعات نے ہزاروں میل دور ’لبابہ‘ کاÂ جذبہ انسانیت بھی بیدار ہوا اور وہ بھی حق واپسیÂ کے متاثرین کی مدد کے لیے غزہ پہنچ گئیں۔
لبابہ ایک برطانوی طالبہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے عوام کی مشکلات کا دیکھ کرسے بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب اس نے دیکھا کہ غزہ کی پٹی میں نہتے مظاہرین کو خون میں نہلا دیا گیا تو اسے یہ دیکھ کر رہا نہ گیا۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ہرصورت میں غزہ پہنچے گی اور زخمیوں اور دیگر مظلوم شہریوں کی ہرممکن داد رسی کرے گی۔
ناکہ بندی اور مشکلات
لبابہ نے کہا کہ اس نے غزہ کی پٹی کے عوام کی مشکلات کو انتہائی قریب سے دیکھا۔ وہ ایک ایسے علاقے میں جہاں 20، 20 گھنٹے روزانہ بجلی نہیں ہوتی۔ پانی کی قلت، ادویات ناپید، مشکلات بے حساب مگر غزہ کے عوام کا جذبہ جواں ہے۔
لبابہ کا کہنا تھا کہ اس کا تجربہ انتہائی منفرد رہا۔ میں نے محسوس کیاکہ غزہ کی پٹی کےعوام کا حقیقی دکھ جسے میں برطانیہ میں رہتی ہوئے محسوس نہیں کرسکتی تھی غزہ کی پٹی میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں۔ میں نے سات سال سے اپنے خاندان کو نہیں دیکھا اور آج میں دیکھ رہی ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں لبابہ کا کہنا تھا کہ صیہونی فوج نہ صرف فلسطینی مظاہرین کو نشانہ بناتی ہے بلکہ امدادی کارکنوں، طبی عملے، صحافیوں اور ایمبولینسوں کو بھی برابر نشانہ بنا رہی ہے۔
غزہ اور لندن کے درمیان
ایک سوال کے جواب میں برطانوی شہریت رکھنے والی لبابہ نے کہا کہ برطانیہ میں نوجوانوں کی اکثریت فلسطینی قوم سے ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہے تاہم سرکاری مؤقف عوام کے جذبات کی عکاسی نہیں کرتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کے عوام خاموشی کے ساتھ مشکلات کا صبر سے سامنا کررہے ہیں۔ ان کی زندگی میں حقیقی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ کشمکش کے اسباب تبدیل کرکے اس کے نتائج کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
لبابہ کا کہنا تھا کہ وہ واپس برطانیہ جائے گی اور اپنے دوستوں کو بتائے گی کہ اس نے غزہ میں کیا دیکھا۔ میرے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے اور ہم لیکچرز کا اہتمام کریں گے اور حکومت سے بھی پر زور مطالبہ کریں گے کہ وہ محصورین غزہ کی مدد کے لیے ہرممکن اقدامات کرے۔