صہیونی ریاست نے اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پرماضی میں بھی فلسطینیوں کی سرنگوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کی بھرپور مگر ناکام کوشش کی مگر اس کے نتائج انتہائی حوصلہ شکن رہے ہیں۔ زیرزمین سرنگیں فلسطینیوں کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہیں جہاں وہ اپنے جنگی ہتھیار چھپانے کے ساتھ ساتھ دشمن کے ساتھ دو بدو لڑائی کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
چونکہ غزہ کی پٹی جسے تحریک آزادی فلسطین کے بیس کیمپ کا درجہ حاصل ہے میں فلسطینی مجاھدین کی سرنگیں ایک عرصے سے اسرائیلی ذرائع ابلاغ، سیاسی اور عسکری حلقوں کا ایک بڑا موضوع ہیں اور ان سرنگوں سے چھٹکارے کے لیے نت نئے نئے منصوبے وضع کیے جاتے ہیں۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں فلسطینیوں کی سرنگوں کے بارے میں جاری بحث کا جائزہ لیا ہے۔ ویسے تو آئے روز اسرائیل کے پرنٹ میڈیا میں مضامین اور خبریں شائع ہوتی اور الیکٹرانک میڈیا میں فلسطینیوں کی سرنگوں پر مباحثے ہوتے ہیں مگر مرکز نے عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا احوال بیان کیا ہے۔ یہ رپورٹ دراصل اسرائیل کے دفاعی تجزیہ نگاروں بالخصوص عسکری امور کے ماہر عاموس ھرئیل کے خیالات پرمبنی ہے اس لیے اس رپورٹ کی دستاویزی حیثیت دوسرے تجزیوں سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
عاموس ہرئیل کی رپورٹ کے لیے ’تیاری نیچے سے شروع کی جائے‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔
ذمہ دارانہ مہم جوئی
اسرائیلی دفاعی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے کھودی گئی دفاعی سرنگوں کے انسداد کے لیے فوج نے جو مشقیں کی ہیں وہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان سرنگوں کے اندرونی حالات انتہائی مشکل، تاریک، تنگ اور آکسیجن کی قلت سے جیسی کیفیات سے بھرپور ہیں۔ اس لیے تا دیر ان سرنگوں میں زیرزمین رہنا ممکن نہیں۔ گرد وغبار، دھواں ایک سے دوسری سرنگ میں داخل ہوتا ہے جو وہاں پر موجود کسی بھی شخص کو باہر نکلنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ تنگ اور تاریک جگہ پر ویسے ہی وقت گذارنا مشکل ہے۔ جب آپ کو آگے کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا تو آپ وہاں پر آگے کیسے بڑھیں گے۔
صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی حقیقی سرنگوں اور جنگی مشقوں کے لیے بنائی گئی فرضی سرنگوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ بھلے فرضی سرنگوں میں فوج جو جتنے بھی مشکل حالات کی تربیت دی گئی ہوگی وہ بہرحال حقیقی سرنگوں کا مقابلہ کرنے میں غیرمعمولی مشکلات کا سامنا کریں گے۔
صہیونی تجزیہ نگار نے فلسطینی مزاحمت کاروں کی سرنگوں کی اہمیت اور ان کی دفاعی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے تمام سپاہیوں کو ان سرنگوں سے نمٹنے کی تربیت بھیی نہیں دی جاسکتی۔ اگر فوج کے ایک ایک فرد کو ان سرنگوں کے حالات سے آگہی کے ساتھ ان کے اندر رہنے وقت گذارنے کی تربیت دی جائے تویہ اچھا خاص وقت اورسرمایہ طلب کام ہے۔ یہ ایک ذمہ دارانہ مہم جوئی سے کم نہیں ہے۔ رہے فلسطینی مزاحمت کار تو وہ تعداد میں کم ہونے کے باوجود سرنگوں میں وقت گذارنے کی اچھی خاصی مشق کرچکے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے لیے زیرزمین غاروں کے اندر زیادہ وقت قیام کرنا کوئی مشکل نہیں ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار نے تجویز پیش کی ہے کہ فوج کے تمام شعبوں کو اگراس تربیت سے نہ بھی گذارا جاسکے تو کم از کم پیادہ فوجی دستوں، انجینیرنگ کور کے اہلکاروں اور ایلیٹ فورس کے فوجیوں کو فلسطینی مزاحمت کاروں کی سرنگوں سے نمٹنے کی تربیت ضرور فراہم کی جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2014ء کے موسم گرما میں غزہ کی پٹی پر فلسطینی مزاحمت کاروں کے خلاف مسلط کی گئی جنگ کے دوران بھی فوج میں جو خامی پائی گئی وہ ان سرنگوں کے حالات سے عدم آگاہی پر مبنی تھی۔
پریشان کردینے والا معرکہ
عاموس ہرئیل کا کہنا ہے کہ عراد کے مقام پر فوجی کیمپ کے قریب فلسطینی مزاحمت کاروں کی سرنگوں کی طرز پرجو فرضی سرنگ فوجیوں کی ٹریننگ کے لیے تیار کی گئی ہے اس کا افتتاح چند روز قبل ہوا ہے۔ سرنگ کی افتتاحی تقریب میں سدرن کمان کے سربراہ جنرل ایال زمیرسمیت کئی دوسرے فوجی عہدیدار موجود تھے۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ اس سرنگ کی تیاری میں ایک ملین شیکل کی رقم خرچ کی گئی ہے۔ اگرچہ فوج نے دشمن کے علاقے کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے مگر فوج کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس کا مقابلہ حزب اللہ اور حماس جیسے گروپوں کے ساتھ ہے۔ یہ درست ہے کہ مذکورہ سرنگ حماس اور جنوبی لبنان میں حزب اللہ کی کھودی گئی سرنگوں سے کافی حد تک مشابہت رکھتی ہے۔ کئی عمارتوں کو فوجی بیرکوں کی شکل دی گئی ہے۔ ایک آپریشن کنٹرول روم قائم کیا گیا ہے جب راکٹ لانچنگ اڈا اور انہیں روکنے کے لیے آئرن ڈوم کا اڈہ اہمیت کے حامل ہیں۔ انہی کے درمیان ایک سرنگ کھودی گئی ہے جوغزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کی سرنگوں سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔
ہرئیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی سرنگیں صہیونی فوج کے لیے بڑا خطرہ ہیں اور ان سے نمٹنا دل گردے کا کام ہے۔ یہ ایک مشکل اور پریشان کردینے والا معرکہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2006ء میں حزب اللہ کے خلاف اسرائیلی جنگ کے بعد فوجیوں کو سرنگوں سے نمٹنے کے لیے کوئی باضابطہ تربیتی کوشش نہیں کی گئی۔ اس طرح کی کوششوں کا آغاز آرمی چیف جنرل گابی اشکنزئی کی مساعی کا نتیجہ جو اگرچہ بہت دیر سے ان سرنگوں کی دفاعی اہمیت اور ان کے خطرات کو سمجھے ہیں مگردرست سمجھے ہیں۔
دشمن کا اعتراف
فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے کھودی گئی دفاعی سرنگوں کی حکمت عملی کو دشمن بھی تسلیم کرنے لگا ہے۔ اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ فوج اور سیکیورٹی اداروں کو بہت تاخیر کے ساتھ یہ اندازہ ہو سکا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کار سرنگوں کو ایک دفاعی ٹول اور جنگی حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
عاموس ہرئیل کا کہنا ہے کہ سنہ 2014ء کی جنگ میں جب اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں داخل ہوئی تو اسے بعض مقامات پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک پرانے اور بوسیدہ مکان میں چھپے فلسطینیوں نے گھات لگا کر حملہ کیا اور اسرائیل کی اسپیشل کمانڈو یونٹ گولانی سے وابستہ متعدد اہلکاروں کو ہلاک اور کچھ کو یرغمال بنا لیا۔ دراصل یہ ساری کارروائی فلسطینیوں نے ایک سرنگ کے اندر سے چھپ کر کی اور ہماری فوج کو اندازہ نہ ہوسکا کہ فلسطینی مزاحمت کار ایسی کارروائی بھی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ حماس کے عسکری ماہرین اور مزاحمت کاروں کی پالیسی یہ ہے کہ وہ پسپا ہوتے ہوئے اسرائیلی فوج کو غزہ کے اندر تک جانے کا موقع دے اور پھر فوجیوں کو سرنگوں میں گھسا کر انہیں نشانہ بنائے۔ یہ ایک خطرناک جنگ ہے اس لیے فوج کو نہ صرف ان سرنگوں کو ختم کرنے کے لیے جاندار پالیسی اپنانا ہوگی بلکہ نہایت احتیاط کے ساتھ ان سرنگوں کے خطرات سے نمٹنا ہو گا۔