غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کی دو بڑی جماعتوں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور فتح کے درمیان 10 بعد تاریخ ساز معاہدے کا اعلان اور پیمان میں مصر کے کردار کی تحسین حیرت کی بات نہیں۔ مصری حکومت نے فلسطینیوں کو باہم شیرو شکر کرنے میں جو موثر، جاندار اور برادرانہ کردار ادا کیا اس پر مصری حکومت بجا طور پر داد کی مستحق ہے۔
فلسطینیوں میں مفاہمت اور مصالحت کو اگر گاڑی کی مثال سے بیان کیا جائے تو مصر اس کا انجن ہوگا۔ مصر نے فلسطینیوں کو باہم مل بیٹھنے، اختلافات بھلا کر ایک ہونےاور وحدت کی ترغیب دی۔اگرچہ مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک امن معاہدے کے تحت تعلقات قائم ہیں مگر جب تک مصر کی مشرقی سرحد پر غزہ کو قومی سلامتی کے ایک گیٹ کا درجہ حاصل ہے، صہیونی ریاست مصر کو منفی نظروں سے دیکھے گی۔
جمعرات 12 اکتوبر کر حماس اورفتح کے درمیان تاریخ ساز معاہدہ طے پایا۔ دونوں بڑی جماعتوں میں مفاہمتی مذاکرات کی نگرانی مصری وزیر برائے انٹیلی جنس امور خالد فوزی نے کی۔ دونوں جماعتوں کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ غزہ کی پٹی میں تمام انتظامی امور یکم دسمبر تک بہ تدریج قومی حکومت کو سپرد کردیے جائیں گے۔ اس کے بعد حماس اور فتح مل کر قومی حکومت کو مستحکم کریں گی۔
فلسطینیوں میں اتحاد کی مصری مساعی جمیلہ کے فلسطینی معترف ہیں۔ گذشتہ کئی عشروں سے مصر فلسطینیوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کے لیے کوشاں رہا ہے۔
حسین سماجی امتزاج
غزہ کی پٹی کو’منی مصر‘ کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں اور مصری شہریوں نے غزہ میں شادیاں کرکے ایک منفرد سماجی امتزاج قائم کیا ہے۔ سنہ 1948,1967 اور 1973ء کی جنگوں میں فلسطینیوں نے مصر میں اپنا خون بہایا اور جانوں کی قربانیاں دیں۔ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے معاہدوں میں بھی قاہرہ کا کلیدی کردار رہا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار حسم الدجنی نے کہا کہ مصر ماضی اور حال میں قضیہ فلسطین کے حوالے سےمسلسل موثر کردار ادا کرتا رہا ہے۔ فلسطینیوں میں مفاہمت اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ مصر کی جانب سے فلسطینی فریقین پر واضح کردیا گیا تھا کہ اب کی بار مصالحتی کوششوں کو ہرصورت میں کامیاب بنایا جائے گا۔ مصر کے اسی جذبے نے مصالحت کی گاڑی کو آگے کی طرف بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔
فلسطینی تجزیہ نگار کے مطابق فلسطینیوں میں مفاہمت کے ساتھ ساتھ حماس اور مصر کے درمیان باہمی تعلقات بھی بہتر ہوئے ہیں۔ حماس فلسطینی قومی سلامتی کی اسٹریٹجی کی خادم ہے۔ دوسری جانب حماس کی انہی خدمات کے جواب میں مصر نے فلسطینیوں میں مصالحت کا دروازہ کھولا۔
حماس کو جغرافیائی طور پر مصر کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا ضروری ہیں۔ یہی وجہ ہے مصر اور حماس دونوں نے اپنے موقف میں لچک کا مظاہرہ کیا۔ مصری ذرائع ابلاغ میں بھی حماس اور قاہرہ کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات کو مثبت سمت میں اہم پیش رفت قرار دیا۔
فلسطینی دانش ور محمود العجرمی کا کہنا ہے کہ غزہ اور مصر کے جغرافیائی محل وقوع نے مصر کے لیے مسئلہ فلسطین کی اہمیت دو چند کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصر جہاں ایک طرف تمام فلسطینی دھڑوں کے ساتھ خوش گوار تعلقات کے قیام کا خواہاں ہے وہیں وہ عرب ممالک میں بھی کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔
العجرمی نے کہا کہ مصر نے فلسطینیوں کے درمیان کئی بار معاہدوں میں اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 2005ء، 2006ء،2007ء کے معاہدہ مکہ ، 2011ء میں فلسطینیوں میں مصالحت اور سنہ 2008ء اور 2014ء کی اسرائیل کی غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگوں کی روک تھام کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
مصر اس بات قانع ہے کہ حماس کسی دوسرے ملک کے اندرونی امور میں مداخلت نہیں کرتی۔ یہ واحد فلسطینی تنظیم ہے جس نے فلسطین سے باہر ایک گولی بھی نہیں چلائی۔
تجزیہ نگار کے مطابق سنہ 1979ء میں اسرائیل اور مصر کے درمیان امن معاہدہ طے پانے کے بعد بھی صہیونی ریاست اپنی دشمنانہ سرگرمیوں سے باز نہیں آیاْ صہیونی ریاست مصر کی جاسوسی کے ساتھ ساتھ اسے سلامتی اور زرعی شعبے میں نقصان پہنچانے کی ہرممکن سازشیں کرتا رہا ہے۔ مصر کو بھی اسرائیلی ریشہ دوانیوں کا بہ خوبی ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے حوالے سے مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔
مصالحتی اسٹیشن
مصر گذشتہ گیارہ سال سے فلسطینیوں میں مصالحت کاری کے لیے کوشاں رہا ہے۔ مسئلہ فلسطین ہو، یا غزہ کا معاملہ مصر نے سیاسی اور عملی میدانوں میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ سنہ 2017ء میں طے پانے والے مصالحتی معاہدے کو فلسطینی ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔
فلسطینی تجزیہ نگار الدجنی کا کہنا ہے کہ قضیہ فلسطین کے حوالے سے مصر کے تحفظات بھی بجا ہیں۔ غزہ کی پٹی کی سرحد خاص اہمیت کی حامل ہے جو مصر کی قومی سلامتی کا حصہ ہے۔ نیز یہ کہ فلسطینیوں میں کسی بھی قسم کا سیاسی اتحاد مصر کو فلسطینیوں کے مزید قریب کردے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قاہرہ نے فلسطینی قوتوں کے ساتھ تعلقات کے قیام کا ازسرنو جائزہ لیا۔
مشرق وسطیٰ کے موجودہ اور تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے منظر نامے میں مصر کا فلسطینیوں کو متحد کرنے کا کردار قابل تحسین اور متوازن ہے۔
العجرمی کا کہنا ہے کہ حماس کو اندازہ ہے کہ غزہ کی پٹی کا محاصرہ مصر سے گذرے بغیر ختم نہیں ہوسکتا۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران عالمی رہ نماؤں کی غزہ آمد سنہ 2011ء کے بعد غیرمعمولی پیش رفت ہے۔