الخلیل (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی قوم کو قدرت نے ایسی بہادر ماؤں کی دولت سے بہرہ مند کیا ہے جن کی گود میں پرورش پانے والے ہیروز غاصب صیہونی ریاست کے سامنے جس بہادری اوربے جگری کا مقابلہ کرتے ہوئے ہرطرح کے مصائب وآلام کا سامنا کرتے ہیں اس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔
ان بہادر اورغیورفلسطینی ماؤں میں غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل کی وادی البصاص سے تعلق رکھنے والی الحاجہ صبیحہ القواسمی المعروف ’ام حسن‘ کا نام فلسطینی تاریخ میں ہمیشہ تاب ناک رہے گا۔ ان کی پوری زندگی سخاوت، قربانی، بہادری، دلیری، صبر،استقلال، استقامت اور حب الوطنی کا عملی نمونہ رہی۔ ان کی گود میں پلنے والے فلسطینی شہداء، اسیران اور جلا وطن ہوتے رہے مگر اپنی مٹی، وطن اور مقدسات سے دستر بردار نہیں ہوئے۔ الحاجہ الصبیحہ کی پرورش نے ان میں وہ تمام صفات کوٹ کوٹ کر بھر دی تھیں جو خود ان کی ماں میں بہ درجہ اتم پائی جاتی تھیں۔وادی بصاص میں زندگی گذارنے والی ام حسن اب اس دنیا میں نہیں رہیں مگر ان کا تاریخ تحریکÂ فلسطین میں ہمیشہ گونجتا رہے گا۔ ان کی قربانیوں، جذبہ آزادی، بچوں کی مخصوص انداز میں پرورش، صبرو استقلال کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
پرورش اور مزاحمت
ام حسن وادی البصاص کی حارہ الشیخ کالو میں پیدا ہوئیں۔ یہ جگہ فلسطینی مزاحمتی قیادت کی وجہ سے کافی شہرت رکھتی ہے۔ ان کا خاندان بھی مزاحمت کاروں میں شمار ہوتا تھا اور پورے خاندان نے تحریک آزادی فلسطین کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ ام حسن میں بھی مزاحمت اور صیہونی ریاست کے خلاف جدو جہد کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ وہ ایک ہی وقت میں جلاوطن، اسیر اور شہید بیٹوں کی ماں کہلاتی تھیں۔ صبرو استقلال کا پہاڑ تھیں۔ بیٹوں کی اسیری، شہادت اور جلا وطنی نے اسے اندر ہی اندر سے توڑ دیا تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے زبان پر کبھی حرف شکایت نہیں آنے دیا۔
رپورٹ میں ام حسن کی وفات سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو کیا۔
فلسطینی قوم شہیدوں، غازیوں، اسیروں اور جانثاروں کی قوم کہلاتی ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی ایک خاندان ہوجو کسی شہید کا امین اور کسی اسیر کی رہائی کا منتظر نہ ہو مگران بے شمار دلسوز واقعات میں ’ ام خنسا‘ کی دلخراش داستان الگ انفرادیت رکھتی ہے۔ وہ بہ یک وقت شہیدوں ،غازیوں اوراسیروں کی ماں ہیں۔ ’سامر العیساوی‘ المعروف ’ام خنسا‘ صبرو استقامت اور استقلال کا پہاڑ ہیں۔ زندگی میں جتنے دکھ انہوں نے جھیلے ہیں، شاید ہی کسی دوسرے کے مقدر میں آئے ہوں مگر وہ تمام ترصیہونی مصائب وآلات برداشت کرنے کے بعد بھی عزم استقامت اور صبرو استقلال کا پہاڑ ہیں۔ انسان ہونے کے ناطے ان کا دل بھی پسیج جاتا ہے۔
وہ اس پیرانہ سالی میں تن تنہا گھر پر زندگی گذار رہیں۔ ایک بیٹا شہید ہوچکا، چار بیٹے اور ایک بیٹی اس وقت صیہونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ ام خنساء کی کل کائنات یہی چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
رپورت میں فلسطین کی اس عظیم ’ماں‘ کے حالات وخیالات پر مشتمل ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
شہید کی ماں
ام خنسا کا ایک بیٹا صیہونی دہشت گردی میں شہید ہوا۔ یوں وہ شہید کی ماں کہلائیں۔ اس کی مصائب وآلام کا آغاز سنہ 1948ء سے ہوتا ہے۔ انہوں نے ارض فلسطین میں قابض صیہونی ریاست کے قیام کے وقت فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم نہ صرف آنکھوں سے دیکھے بلکہ ان پر مظالم برتے گئے۔ صیہونی ریاست کے قیام کے وقت جبرو تشدد کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینیوں کے ساتھ ام خنساء کو بھی ھجرت کرنا پڑی۔ تب ام خنساء ایک کم عمر بچی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’میں جب اپنے گھر کے خالی کمرے، ان میں رکھے بیٹوں کے کپڑےÂ اور بیٹوں کی تصاویر دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے مگر میں جلد ہی اس بات پرمطمئن ہوجاتی ہوں کہ میری اولاد ملک وقوم کے لیے کام آئی ہے۔ میرا ایک بیٹا فلسطین پر اپنی جان قربان کرکے سرخرو ہوا۔ ایک بیٹی شیریں اور چارÂ بیٹے اس وقت صیہونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ ویران گھر دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے لیےدست بہ دعا ہوتا ہے۔ اس امید کے ساتھ زندہ ہوں کہ اسرائیلی زندانوں میں قید بیٹوں کی شب تاریک کبھی تو ختم ہوگی۔
الحاجہ لیلیٰ عبید’ ام سامر العساویہ‘ اور ’ام خنسا‘ کے ناموں سے فلسطین بھر میں شہرت رکھتی ہیں۔
ام خنساء کے چار بیٹے اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ اس کا ایک بیٹا رافت 1994ء میں مسجد ابراہیمی میں قتل عام کے خلاف احتجاج کے دوران 17 سال کی عمر میں صیہونی فوج کی اندھی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ رافت کی شہادت کے بعد اس کے بیٹوں مدحت، ،سامر، فراس اور شادی کو صیہونی فوج نے حراست میں لیا۔ اس کے بیٹوں کا لڑکپن اور جوانی سب صیہونی جیلوں میں گذری۔ حتیٰ کہ اس کی بیٹی’شیرین’ جو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے بھی صیہونی جیل میں پابند سلاسل ہے۔
فلسطینی اسیران کی بھوک ہڑتال کے بارے میں بات کرتے ہوئے ام سامر العیساوی نے بتایا کہ اسیران کے تمام مطالبات ہراعتبار سے بجا اور مبنی برحق ہیں۔
اگر اسیران علاج کی سہولیات کے لیے احتجاج کررہے ہیں تو بہ حیثیت انسان انہیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔ کیونکہ اسرائیلی زندانوں میں کینسر، امراض قلب، جگر اور کئی دائمی بیماریوں کے مریض پابند سلاسل ہونے کے ساتھ ساتھ صیہونی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت کا سامنا کررہے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں چار بیٹوں اور ایک اسیر بیٹی کی ماں نے کہا کہ اس نے الرملہ جیل کی اسپتال میں متعدد بار اپنے اسیر بیٹے سے ملاقات کی۔ میں نے دیکھا کہ سامر کو بنیادی نوعیت کی طبی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں۔ تمام مریض اسیران کو صرف درد کش ادویات دی جاتی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ الرملہ نام نہاد اسپتال ہے جس میں اسپتال نام کی کوئی سہولت نہیں۔
ام خنساء نے بتایا کہ وہ گھر سے اپنے بیٹوں اور اسیر بیٹی کے لیے کپڑے تیار کرکے لے جاتی ہے مگر صیہونی انتظامیہ ان تک کپڑے نہیں پہنچاتے۔ سامر کو گذشتہ ایک سال سے کپڑے نہیں پہنچائے گئے۔ سامر کو انتظامی قید میں ڈالا گیا ہے۔ میں نے بار بار صیہونیوں سے استفسار کیا کہ سامر کا کیا قصور ہے کہ اسے بغیر کسی جرم کے قید میں رکھا ہوا ہے۔
گھروں کی مسماری
اس عظیم فلسطینی مجاھدہ کی زندگی میں مشکلات اس کے بیٹوں کی شہادت، اسیری یا جلا وطنی تک محدود نہیں بلکہ صیہونی حکام ان کی املاک کے بھی در پے تھے۔ سنہ 2004ء میں صیہونی فوج نے ان کے بیٹوں کے سات منزلہ ایک مکان کو مسمار کردیا۔ آخر میں اس کے بیٹے حسام کا گھر مسمات کیا گیا جس پر الزام عائد کیا کہ وہ تین صیہونی فوجیوں کو اغواء کے بعد قتل میں ملوث ہے۔