صہیونی ریاست ان چھاپہ خانوں کو فلسطینی مزاحمت کاروں کا دست وبازو قرار دے کر ان پر’دہشت گردی میں معاونت‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے انتقام کا نشانہ بنا رہا ہے۔ مگر بات صرف صہیونی ریاست کی جارحیت اور صہیونی فوج کے حملوں تک محدود نہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے کی عارضی حکمران رام اللہ تھارٹی بھی اس جرم میں صہیونی دشمن کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق غرب اردن میں فلسطینیوں کے چھاپہ خانے روز مرہ کی بنیاد پر اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پرنٹنگ کی مشینیں اور دیگر آلات ضبط کرلیے جاتے ہیں۔ وہاں پر کام کرنے والے کاری گروں کو گرفتار یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پرنٹنگ پریس مالکان کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کی جانب سے انتقامی سیاست کے نتیجے میں انہیں بے پناہ مالی نقصان ہوچکا ہے۔ ان کی کروڑوں ڈالر کی مشنیں ضبط کرلی گئی ہیں اور ان مشینوں کی واپسی کے لیے ان کے مطالبات کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا ہے۔
پریس کی بندش اور سامان کی ضبطی
مقبوضہ مغربی کنارے کے فلسطینی پرنٹنگ پریس مالکان اس بات پر سخت پریشان ہیں کہ وہ اپنے چھاپہ خانوں کو صہیونی ریاست کی دست برد سے بچانے میں ناکام ہیں۔ صہیونی فوجی آئے روز چھاپہ خانوں پر دھاوے بولتے۔ سامان اور قیمتی مشینیں ضبط کرتے اور عملے کو زدو کوب کرنے کے ساتھ پریس مالکان کو بھاری جرمانے کرتے ہیں۔
نابلس میں قائم فلسطینی پریس کے مالکان کا کہنا ہے کہ انہیں روز مرہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوج اور پولیس کی جانب سے جارحیت کا سامنا ہے۔ ان کے پریس نہ صرف بند کردیے جاتے ہیں بلکہ ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جاتے ہیں۔ وجہ صرف یہ کہ یہ پرنٹنگ پریس مقامی اخبارات اور جرائد کی اشاعت کا کام کرتے ہیں۔ یہ بات صہیونیوں کو کسی قیمت پر قبول نہیں۔
مقامی پریس مالکان نے سوشل میڈیا اور فیلڈ میں صہیونی فوج کی انتقامی سیاست کے خلاف مہمات بھی شروع کی ہیں۔ سوشل میڈیا پر شہریوں نے ان کےساتھ مکمل ہمدردری اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ بہت سے پریس مالکان کو صہیونی ریاست کی طرف سے زبان کھولنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں جس کے باعث وہ مجبورا حرف احتجاج بلند کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
مسلسل دھمکیاں
ایک مقامی پریس مالک ابو فواد نے کہا کہ ان کے پریس سے کتب اور اخبارات کی اشاعت کی جاتی ہے۔ انہیں روز مرہ کی بنیاد پر صہیونی حکام کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ پریس بند کردیں، فلسطینی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا لٹریچر شائع کرنا چھوڑ دیں۔
حتیٰ انہیں اسکولوں اور جامعات کی کتب شائع کرنے سے بھی روکا جاتا ہے، جب انتخابات کا سیزن ہوتا ہے تو صہیونی انٹیلی جنس اداروں کے افسران انہیں فون کرکے خبردار کرتے ہیں کہ ہم اسلامک بلاک جیسی طلباء طلباء تنظیموں کے اشتہارات اور دیگر لٹریچر نہ چھاپیں اور اگر ہم ایسا کریں تو اس کے نتیجے میں پریس کی بندش اور مالکان اور عملے کی گرفتاری کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
غرب اردن کے ایک نوجوان پریس مالک نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اسے پانچ سال سے مسلسل صہیونی انتظامیہ کی جانب سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ہرماہ میں کئی بار بالواسطہ یا براہ راست اسرائیلی فوجی افسر اور انٹیلی جنس اہلکار اسے دھمکیاں دیتے ہیں۔ کئی بار اس کے چھاپہ خانے پر دھاوا بول کر قیمتی سامان ضبط اور عملے کو زدو کوب کیا گیا۔
پرنٹنگ پریس کا شعبہ تباہی سے دوچار
ایک مقامی فلسطینی پریس مالک نے کہا کہ سچ پوچھیں تو فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست اور اسرائیلی ریاست کی جارحیت کے باعث پرنٹنگ پریس کا شعبہ بدترین تباہی سے دوچار ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی انتظامیہ کی طرف سے نہ صرف ہمیں بلیک کیا جاتا ہے بلکہ مختلف جرائد اور لٹریچر شائع کرانے کے لیے کام کرنے والے ہمارے گاہکوں کا بھی تعاقب کیا جاتا ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ شہداء کے پوسٹر شائع کرنا سنگین جرم ہے۔ کسی فلسطینی اسیر کی تصویر یا اشتہار شائع کرنے پر بھی سختی سے پابندی ہے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اس کے چھاپہ خانے کی مشیںیں اور پرنٹنگ کے آلات ضبط کرلیے جاتے ہیں۔ یوں پورا شعبہ بدترین تباہی سے دوچار ہے۔
قصہ مختصر فلسطینی چھاپہ خانوں کے مالکان کو صہیونی دشمن کی جانب سے ہمہ وقت کی جنگ کا سامنا ہےاور یہ جنگ نہ صرف صہیونی ریاست کی طرف سے ان پر مسلط کی گئی بلکہ فلسطینی اتھارٹی بھی اس ظلم میں برابر کی شریک ہے۔ مگر اس کے باوجود فلسطینی پریس مالکان نے صہیونی ریاست کے جرائم کو ہرصورت میں بے نقاب کرنے کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھنے کے عزم صمیم کررکھا ہے۔