آئے روز صہیونی زندانوں میں کم سن فلسطینیوں پر ہولناک تشدد کی خبریں آتی ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے بار بار مطالبات کے باوجود قابض صہیونی تفتیشی ادارے کم عمر فلسطینیوں پر وحشت اور بربریت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں اسرائیلی عقوبت خانوں میں کم عمر فلسطینیوں پر وحشیانہ تشدد اور بچوں کی گرفتاریوں کے وقت انہیں ہراساں کرنے چند واقعات پر روشنی ڈالی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینی بچوں کو حراست میں لینے کے بعد عقوبت خانوں میں ان پر تو مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں مگر گرفتاری کے وقت بھی بچوں کو ان کے اہل خانہ، بہن بھائیوں اور والدین کے سامنے غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کئی بچوں کی گرفتاری کے وقت وحشیانہ تشدد سے ہڈیاں تک ٹوٹ جاتی ہیں۔
اس طرح زخمی ہونے والے بچوں کو بعد ازاں ٹارچر سیلوں میں مزید اذیتوں کا Â نشانہ بنایا جاتا ہے۔
رام اللہ کے ایسے ہی ایک ستم رسیدہ 14 سالہ یزن ابو عودہ کی کہانی بھی انتہائی المناک ہے۔ عودہ کو27 جولائی کو حراست میں لیا گیا اور وہ اس وقت اسرائیل کے ’عوفر‘ جیل میں پابند سلاسل ہے۔
اس کے ساتھیوں نے بتایا کہ ستائیس جولائی کو رام اللہ کے قریب بیت ایل چیک پوسٹ کے نواحی علاقے میں احتجاجی مظاہرہ جاری تھا۔ اسرائیلی فوج نے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے ان پر لاٹھی چارج کیا، آنسوگیس کی شیلنگ اور دھاتی گولیوں کی بوچھاڑ کی۔ اس دوران کچھ فوجیوں نے یزن ابو عودہ کو پکڑ لیا۔ ایک درندہ صفت اہلکار نے ابوعودہ کے سر پر بندوق کے بٹ مارے جب کہ دوسرے نے اس کی ٹانگوں پر پستول سے ضربیں لگائیں۔ اسرائیلی فوجیوں نے اسے مل کر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ لہو لہان ہوگیا۔ اسے اسی حالت میں ایک فوجی گاڑی میں ہاتھ پاؤں باندھ کر پھینک دیا گیا۔ کئی گھنٹے اسی کرب کی حالت میں رہنے کے بعد اسے قریب واقع ’بنجمن‘ یہودی کالونی میں قائم ایک حراستی مرکز میں لے منتقل کردیا گیا۔
انسانی حقوق کے مندوبین سے بات کرتے ہوئے خود ابو عودہ نے اپنے ساتھ پیش آئے اسرائیلی درندوں کے غیر انسانی سلوک کی تفصیلات بیان کیں۔ اس نے بتایا کہ چیک پوسٹ سے حراستی مرکز تک گاڑی میں اسرائیلی فوجی اسے مسلسل تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔ صہیونی درندے بار بار اس کا سر پکڑ کر پاؤں میں دیتے۔ یہ اذیت ناک سلسلہ دیر تک جاری رہا۔
حراستی مرکز میں ڈالے جانے کے بعد نئے تفتیش کار آئے اور انہوں نے ابو عودہ کو مزید مار پیٹ کرنا شروع کردی۔ صہیونی تفتیش کار نہ صرف اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے بلکہ اسے ذہنی اور نفسیاتی ٹارچر کرنے کے لیے گالیاں دیتے۔ اسے تشدد کے ساتھ ساتھ کہا جاتا کہ وہ خود کو ایک مزاحمت کار تسلیم کرے اور اعتراف کرے کہ وہ اسرائیلی فوجیوں پر سنگ باری میں ملوث ہے۔
الخلیل گورنری کے 16 سالہ محمد طہ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ کلب برائے اسیران کے مندوب کے مطابق طہ کو 21 جولائی 2017ء کو حراست میں لیا گیا۔ اس کی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی جب الخلیل شہر میں باب الزاویہ کے مقام پر فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں۔
ابو طہ نے بتایا کہ صہیونی درندہ صفت فوجیوں نے اسے گرفتاری سے قبل اتنا تشدد کا نشانہ بنایا کہ اس کے سر سے خون کا فوارا پھوٹ پڑا۔ اس کا ایک بازو پہلے ہی ٹوٹا ہوا تھا۔ صہیونی فوجی جان بوجھ کر اسے پہلے سے زخمی بازو پر مارتے جس سے اس کی تکلیف میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ تشدد کا سلسلہ حراستی مرکز منتقل کرنے تک جاری رہا۔ تشدد کے نتیجے میں جب اس کی حالت انتہائی تشویشناک ہوگئی تو اسے ایک دن کے لیے ھداسا عین کارم نامی اسپتال میں داخل کیا گیا۔ ایک دن سے بھی کم وقت میں دوبارہ ٹارچر سیل میں منتقل کردیا گیا۔
اسیر ابوطہ کا کہنا ہے کہ کئی روز گذر جانے کے بعد بھی اس کا جسم زخموں سے چور ہے۔ اس کی بائیں ٹانگ بھی شدید زخمی ہے۔
رام اللہ کے بیت عور کے رہائشی 22 سالہ اسیر احمد عثمان نے بتایا کہ اسے 21 جون 2017ء کو حراست میں لیا گیا تھا۔
گرفتاری کے وقت صہیونی فوج نے اس کے گھر میں ایسا اودھم مچایا کہ کوئی چیز محفوظ نہیں رہی۔ فوجی اہلکار ہرچیز کو تہس نہس کرتے جاتے۔ الماریاں توڑ کر گھر میں موجود خواتین کے زیورات اور نقد رقوم تک لوٹ لی گئی۔ اس کا ایک بازو زخمی تھا۔ اس کےباوجود صہیونی فوجیوں نے اس کے دونوں ہاتھ کمر پر باندھ دیے۔ اسے مسکوبیہ ٹارچر سیل میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد اذیت رسانی کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو 36 گھنٹے تک جاری رہا۔ وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں اس کا پہلے سے زخمی باز مزید متاثر ہوا۔ اسے اسی حالت میں ’عوفر‘ قید خانے میں ڈال دیا گیا۔
جنین کے 17 سالہ ودیع الغول اور یعبد قصبے کے عزالدین عمارنہ نے بتایا کہ صہیونی فوجیوں نے گرفتاری سے قبل انہیں ان کے گھروں میں والدین اور دیگر اہل خانہ کے سامنے بری طرح مارا پیٹا۔ وحشیانہ تشدد کے بعد دونوں کو الجلمہ نامی عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا۔ کئی روز تک اسے وہاں تشدد کا نشانہ بنائے رکھا جس کے بعد انہیں ’مجد‘ جیل منتقل کیا گیا۔