مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں واقع ’عقربا‘ قصبے کے پرانے نام ’سات قبیلوں کی ماں‘ کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ قصبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سبزے اور پانی کے چشموں کی وجہ سے قدرتی حسن سے بھی مالا مال ہے۔
مورخین اور مقامی ثقافتی وتمدنی ماہرین کا کہنا ہے کہ عقربا قصبے کو صدیوں سے ‘سات قبیلوں ماں‘ کہا جاتا رہا ہے۔ اگرچہ اس وقت اس قصبے میں سات نہیں بلکہ صرف چھ قبیلے آباد ہیں۔ ممکن ہے کسی زمانے میں یہاں پر سات قبیلے آباد ہوئے ہوں۔ یا اس قصبے کو سب سے پہلے سات قبیلوں نے آباد کیا ہو۔ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ سب سے پہلے یہاں پر سات گھر آباد ہوئے ہوں جنہیں ایک قبیلہ کا درجہ دیا گیا۔ بعد ازاں اس علاقے کو سات قبیلوں کی ماں کہا جانے لگا ہو۔
سات قبائل کی ماں
عقربا سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی مورخ اور اسکالر حمزہ دیریہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ عقربا کا پرانا نام ’سات قبیلوں کی ماں‘ ہی مشہور رہا ہے کوئی نہیں جانتا کہ اس قصبے کو یہ نام کب ، کیوں اور کس نے دیا تھا۔ عین ممکن ہے یہاں پر آباد سات قبیلوں کی وجہ سے اسے یہ نام دیا گیا ہو مگر اس وقت یہاں صرف چھ قبیلے آباد ہیں۔ سات قبیلوں کا کوئی تصور نہیں ملتا۔
ایک سوال کے جواب میں دیریہ نے کہا کہ عقربا اس قصبے کا نیا نام ہے مگر پرانے نام کی وجہ تسمیہ کے کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ پرانے دور میں یہاں سات قبیلوں نے قیام کیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اسے سات قبیلوں کی ماں کا نام دیا گیا۔ یا یہ کہ جو شخص سب سے پہلے یہاں آباد ہوا اسے یہ لقب دیا گیا تھا جو بعد ازاں اس قصبے سے جڑ گیا۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگار نے بتایا کہ اگرچہ عقربا کو سات قبیلوں کی ماں کا نام دیے جانے کی حقیقی وجہ معلوم نہیں ہوسکی مگر جدی پشتی یہاں پرآباد لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قصبہ 67ء سے آباد چلا آ رہا ہے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ اس قصبے کو بے شمار قبائل نے آباد کیا مگر وہ یہاں پر کچھ عرصہ قیام کے بعد اردن اور شام کے علاقوں کی طرف نکل گئے۔ اس وقت اس قصبے میں الدیریہ، بنی فضل، بنی منیہ، بنی جامع، بنی جابر اور المیادیہ چھ قبیلے آباد ہیں۔ ان تمام قبائل کے نام مختلف ہونے کے باوجود سب کی بود وباش ایک ہی جیسی ہے اور وہ صدیوں سے ایک ہی تہذیبی وثقافتی ورثے کے امین سمجھے جاتے ہیں۔
عقربا کے خاندان
مورخین یہ بھی کہتے ہیں سنہ 67ء میں پہلی بار اس قصبے کی آبادی کے بعد اس کا جغرافیائی اور آبادیاتی نقشہ بار ہا تبدیل ہوتا رہا ہے۔ یہ بھی قیاس ہے کہ سنہ ستاسٹھ کے پہلے بھی یہاں آبادی رہی ہوگی۔ صدیوں پہلے آباد ہونے والے اس قصبے کے قبائلی باشندوں کا اب کوئی وجود اور نام باقی نہیں رہا ہے اور نہ ہی ان کے بارے میں کسی کے پاس ٹھوس معلومات ہیں۔
دیریہ قبیلہ بھی صدیوں قبل یہاں آباد ہوا مگر اس کے لوگ بھی متعدد بار یہاں آئے اور پھر یہاں سے زمین چھوڑ کر یا فروخت کرکے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی کرگئے۔ چند ایک خاندان باقی رہ گئے تھے جن کی نسل آبھی موجود ہے اور اسے الدیریہ ہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حمزہ الدیریہ کا کہنا ہے کہ عقربا قصبے میں آباد خاندان اور قبائل کی یہاں آمد کے اوقات بھی مختلف ہیں اور اس بات کا تعین مشکل ہے کہ کون سا قبیلہ یا خاندان کب یہاں آکر آباد ہوا ہے۔ یہاں آباد ہونے والے خاندانوں میں فلسطین سے باہر کے قبائل جن میں سعودی عرب، یمن، اردن، تیونس، مراکش، شام، عراق اور لبنان کے قبایل شامل ہیں آتے جاتے رہے ہیں۔
تاریخی و عرب پس منظر
فلسطینی تجزیہ نگار حمزہ الدیریہ کا کہنا ہے کہ دستیاب معلومات سے معلوم ہوتا ہے کہ سات قبیلوں کی ماں کے نام سے شہرت پانے والے عقربا قصبے میں کئی عرب خاندان اور قبائل آباد ہوئے۔ بلاد شام کے قبائل کی باقیات کے ساتھ یہاں پر کنعانیوں، عمونیوں، میدینیوں اور یبیوسیوں کی باقیات کے اثرات بھی ملتے ہیں۔ ان کے بعد یہاں پر عرب قبائل جو جزیرۃ العرب سے یہاں آئے آباد کاری کی۔ پھر رومن، ایرانی، سامرائی (عراقی) اور حیثیین وغیرہ نےبھی اس قصبے پر قدم جمائے۔
عرب قبایل کی معلوم تاریخ اسلامی فتووحات کے بعد معلوم ہوتی ہے۔ جلیل القدر تابعی محمد بن عاصم اللخمی بھی اس قصبے کے باشندے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہالیان عقربا ایک تابعی کی سرزمین ہونے پر فخر کا بھی اظہار کرتے ہیں۔
اسلام تاریخ مین سنہ 636ء میں عرب قبائل یہاں آئے اور سکونت اختیار کی۔ اس کے بعد فلسطین میں عرب قبائل کی ھجرت کا وسیع سلسلہ شروع ہوا۔ صلیبی جنگوں سے دیگر فلسطینی شہروں کی طرح عقربا بھی متاثر ہوا اور یہاں کے باشندوں کی بڑی تعداد دمشق منتقل ہوگئے۔ ان میں علم اور علماء کی پہچان سمجھا جانے والا عبدالرزاق نامی ایک عالم دین کا خاندان بھی شامل تھا جو دمشق میں جا کرآباد ہوا۔
بیت المقدس کی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں فتح اور صلیبیوں کی شکست کے بعد عقربا میں شامی، اردنی، حجازی، عراقی اور دیگر عرب ممالک کے خاندان آباد ہونا شروع ہوئے۔ تاتاریوں کو شکست دینے اور منگولوں کی پیش قدمی روکنے میں اس قصبے کے مجاھدین کی قربانیوں کو بھی تاریخ میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حمزہ الدیریہ نے بتایا کہ عقربا میں آباد ’بنی‘ کے لقب سے متصف قبائل کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد حجاز مقدس سے تعلق رکھتے تھے اور کعبہ شریف کے معمار تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے نام کے ساتھ ’’بنی‘‘ یعنی معمار کا لفظ جڑا ہوا ہے۔