غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) سیاسی رہنماؤں کی جانب سے ایک دوسرے پر تنقید مشہور ہے مگر فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی زبان و بیان نے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔
وہ ایک ہی لہجے میں ایک طرف امریکیوں اور صیہونیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف امریکیوں اور صیہونیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایک طرف فلسطین میں تمام جماعتوں اور قومی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے اور قومی یکجہتی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ جیسی محب وطن جماعتوں پر دشمن سے ساز بازکرنے اور جماعت پر وزیراعظم رامی الحمد اللہ پر حملے کا الزام عائد کرتے ہیں۔محمود عباس کی زبان و بیان اور ان کے اتار و چڑھاؤ میں اس قدر زیرو بم کیوں ہے؟ رپورٹ میں ماہرین کی آراء کی روشنی میں اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ محمود عباس ’سیاسی ھذیان‘ کا شکار ہیں۔ سوموار کے روز محمود عباس نے تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے 20 منٹ کاÂ خطاب کسی طربیہ اور مزاحیہ فلم کے ڈائیلاگوں سے کم نہیں۔ ان کے اس اظہار بیان کو فلسطینی اور عالمی سطح پر حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ محمود عباس اب 80 اور 90 کے پیٹے میں ہیں۔ عمر کے اس حصے میں زبان کی لغزش تو کوئی حیرت کی بات ہرگز نہیں۔
حال ہی میں فلسطینی حکومت کے سربراہ رامی الحمد اللہ اور فلسطینی انٹیلی جنس چیف ماجد فرج غیراعلانیہ دورے پر اچانک غزہ کی پٹی میں داخل ہوئے۔ فلسطینی وزیراعظم اور وی آئی پی شخصیت کے طور پرانہیں سیکیورٹی کے لیے پہلے سے اپنے دورے کے بارے میں غزہ کے حکام کو آگاہ کرنا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ جب غزہ میں داخل ہوئے تو ان کے قافلے کی راہ میں دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے کے نتیجے میں سات شہری زخمی ہوگئے تاہم وزیراعظم اور انٹیلی جنس چیف دونوں محفوظ رہے۔
ادھر غزہ میں وزیراعظم کے قافلے پر دھماکہ ہوا ادھر اسی لمحے غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے بغیر سوچے سمجھے رد عمل سامنے آگیا۔ یہ رد عمل نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھاÂ بیان تھا جس میں بغیر تحقیق اور ثبوت کے حماس کو اس حملے کا قصور وار ٹھہرا دیا گیا۔ ایسے لگتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے حماس کو مورد الزام ٹھہرانے کا بیان پہلے سے لکھ کر رکھا گیا تھا۔ ادھر غزہ میں دھماکہ ہوا اور ادھر فلسطینی اتھارٹی نے حماس کے خلاف بیان داغ دیا۔ شاید فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس گروپ اس طرح کے بیان سے فلسطینی عوام کی جعلی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کررہے تھے مگر انہیں اس میں منہ کی کھانی پڑی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ فلسطینی صدر محموعباس کے حالیہ اقدامات، احکامات، بیانات اور فیصلے ان کی عمر رسیدگی کا نتیجہ ہیں۔ وہ سیاسی بالغ نہیں بلکہ ان کی سیاسی بصیرت بھی ان کی طرح بڑھاپے کا شکار ہوچکی ہے۔
ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں انہوں نے اسرائیل میں تعینات امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈ مین کو تنقید کا نشانہ بنایا اور انہیں ’کتے کی اولاد‘ کی گالی دی۔ حالانکہ محمود عباس فریڈ مین کے ساتھ کئی خفیہ اور اعلانیہ ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سفیروں اور مندوبین کے ساتھ ملاقاتوں میں صدر محمود عباس نے ڈیوڈ فریڈ مین کے ساتھ والہانہ قربت کا اظہار کیا۔
ڈیود فریڈ کے کے بارے میں محمود عباس کے’انقلابی‘ انداز بیان کو بھی ان کی عمر رسیدگی اور زبان کی لغزش کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ محمود عباس عمر کے آخری حصے میں عوامی انقلابی لیڈر بن کر اپنا من شانت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
تجزیہ نگار اور صحافی فراس ہلال کا کہنا ہے کہ محمود عباس کا حالیہ خطاب معیوب اور افسوسناک ہے۔ ان کی ساری توجہ حماس کے ساتھ محاذ آرائی کو مزید شدید کرنا ہے۔ ان کے بعض بیانات قومی مفاہمت اور مصالحت کے حوالے سے ان کی بدنیتی کا کھلا ثبوت نہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محمود عباس کی طرف سے حماس پر الزامات نئے نہیں اور نہ ہی اس باب میں عباس اکیلے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اور دیگر لیڈر حماس کے خلاف اسی طرح کی متنازع بیان بازی کرتےÂ اور حماس کو قومی مفاہمت کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے رہے ہیں۔
دوسری جانب حماس کی طرف سے جاندار اور ٹھوس مؤقف سامنے آیا ہے۔ غزہ میں فلسطینی وزیراعظم کے قافلے پر حملے کا سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل اور فلسطین دشمن قوتوں کو ہوا۔ اس لیے اس واقعے کے پیچھے بھی صیہونی قاتلوں کا ہاتھ ہے مگر محمود عباس مان کر نہیں دیتے اور وہ جان بوجھ کر صیہونی ریاست کے جرائم کو نظرانداز کررہے ہیں۔
مبصرین اور عوامی حلقوں کی طرف سے محمود عباس کے ھذیانے بیانات پر آنے والا رد عمل حقیقت کے قریب تر ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ محمود عباس عمر کے آخری حصے میں خود کو عوام کا پسندیدہ انقلابی لیڈر قرار دینے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ مگر وہ یہ بھول گئے فلسطینی رہنما ہونے کے باوجود انہوں نے غزہ کی پٹی کے عوام کے خلاف کس طرح کی انتقامی سیاست روا رکھی ہوئی ہے۔ غزہ کے عوام پر قانونی، مالیاتی اور انتظامی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی غزہ کے عوام کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی۔ غزہ کی پٹی کے دو ملین عوام کے دکھوں پر مرہم رکھنے کے بجائے صدر محمود عباس انہیں سزا دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں مگر عوام سے یہ عبث امید رکھتے ہیں کہ فلسطینی انہیں پسندیدہ اور انقلابی لیڈر قرار دیں گے۔