خان یونس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ صرف عام فلسطینی ہی نہیں بلکہ نہتے فلسطینی امدادی کارکنان، طبی رضاکار اور زخمیوں کو فوری طبی امداد پہنچانے والے فلسطینی بھی صیہونی دشمن کی طرح طرح کی بلیک میلنگÂ اور ظلم و جبر کا شکار رہتے ہیں۔
گذشتہ کچھ عرصے سے صیہونی فوج اور نام نہادی سیکیورٹی ادارے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت فلسطینی امدادی کارکنان کو ہراساں کرتے اور انہیں دھونس اور دباؤ کے ذریعے بلیک میل کرتے ہیں۔اسرائیلی مظالم کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والے فلسطینیوں پر جب صیہونی فوج طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں فلسطینی شہری زخمی ہوجاتے ہیں۔ بعض شدید زخمی ہوتے ہیں اوران کی زندگیاں بچانے کے لیے فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ زخمی اور مصیبت زدہ فلسطینیوں کوفوری طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ہلال احمر فلسطین پیش پیش ہے۔ مگر قابض صیہونی فوج ہلال احمرکے رضا کاروں کو بلیک میل کرکے انہیں امدادی سرگرمیوں سے باز رکھنے کی سازش کررہی ہے۔
اس کی تازہ مثال حال ہی میں غزہ کی پٹی کے شمالی علاقے بیت حانون میں قائم گذرگاہ سے گذرنے والی ایمبولینس اور اس کے رضاکار مروان ابو ریدہ کو رُکا اور اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔
چار جنوری کو اسرائیلی حکومت کے رابطہ کار یوآف مردخائی نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ‘فیس بک‘ پر پوسٹ صفحے پر دعویٰ کیا کہ ڈرائیور ابو ریدہ ہلال احمر کی ایک ایمبولینس چلاتا ہے۔ ابو ریدہ زخمیوں کو ایمبولینس میں منتقل کرنے کی آڑ میں غزہ اور مغربی کنارے کے اسلحہ کی اسمگلنگ کرتا ہے۔
زخمیوں کو منتقل کرنے سے روکنے کی سازش
رپورٹ میں امدادی کارکن ابو ریدہ کے معاملے پر روشنی ڈالی ہے۔
انچاس سال مروان ابو ریدہ نے بتایا کہ وہ غزہ کی پٹی میں یورپی اسپتال میں ہلال احمر کی ایمبولینس کے ڈرائیور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے رابطہ کار کی طرف سے کیا گیا دعویٰ قطعا بے بنیاد اور اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ابو ریدہ نے کہا کہ صیہونی فوج کی جانب سے یہ دعویٰ کہ وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے لیے اسلحہ اور دیگرممنوعہ اشیاء اسمگل کررہا ہے دراصلÂ غزہ کے فلسطینی زخمیوں غرب اردن کے اسپتالوں میں لے جانے سے روکنے کی مجرمانہ کوشش ہے۔
ابو ریدہ نے بتایا کہ چند روز قبل اسے اسرائیلی فوج کی طرف سے ایک فون کال موصول ہوئی۔ دوسری طرف سے ایک خاتون بات کررہی تھی جس نے اپنا نام ’نسرین‘ بتایا۔ اس خاتون کا کہنا تھا کہ اس نے اسرائیلی حکام سے الناصرہ شہر میں رہنے والے اپنے والدین اور دیگر اقارب سے ملنے کے لے سفارش کی اجازت حاصل کی ہے۔ نسرین کا کہنا تھا کہ اس کی ماں اور دیگر بہنیں تیس سال سے الناصرہ رہائش پذیر ہیں اور وہ 8 سال سے ان سے نہیں ملی۔ اس نے متعدد بار اپنی بیمار والدہ سے ملنے کے لیے الناصرہ جانے کی اجازت چاہی مگر اسے اجازت نہیں دی گئی۔
خاتون کا کہنا تھا کہ اس نے ایک ماہ سے صیہونی حکام سے اجازتÂ لی ہے اور میرے نہ آنے کا سبب پوچھا۔ اس پر میں نے اسے بتایا کہ فلسطینی رابطہ کار نے اسے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ خاتون نے کہا کہ وہ خود رابطہ کرکے اس حوالے سے بات کرتی ہیں۔
اس واقعے کے چند روز بعد جس موبائل نمبر سے نسرین نے فون کیا تھا ابو جہاد نامی ایک شخص نے فون کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ بیت حانو گذرگاہ پر انسداد منی لانڈرنگ کا انچارج ہے۔ اس نے مجھے ملنے کو کہا۔
ابو ریدہ کہنا تھا کہ فون کے بعد میں نے تشویش محسوس کی اور متعلقہ سیکیورٹی حکام سے بات کی۔ سیکیورٹی حکام نے تاکید کہ میں اس نمبر سے آنے والی کسی فون کال کا جواب نہ دوں۔ مزید چند روز گذرے و اسرائیلی رابطہ کار نے میرے بارے میں فیس بک پر منفی پروپیگنڈہ شروع کردیا۔
شہریوں کو بلیک میل کرنے کی کوشش
مروان ابو ریدہ نے کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی کے شہریوں کو طرح طرح سے بلیک میل کرتی ہے۔ غزہ کے زخمیوں کو علاج کے لیے غرب اردن جانے کے لیے صیہونی حکام کی بلیک میلنگ کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ابو ریدہ کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فوج نے گذشتہ جنگ میں خزاعہ کے مقام پر واقع اس کے مکان کو بمباری سے تباہ کردیا تھا۔ اس کے بعد بھی اس قصبے کو فضائی اور زمینی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
ابو ریدہ نےسنہ 2008ء میں جب وہ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں زخمی ہونے والے ایک شہری کو اسپتال لے جا رہا تھا تو اس کی ایمبولینس پر فائرنگ کی گئی تھی۔ اسے ایمبولنس سے نکل کر ایک گھر میں پناہ لینا پڑی اور ہلال احمر کے کارکنوں کی مدد سے وہاں سے باہر نکلا۔