دوسری طرف اس امریکی منصوبے کے مقابلے میں فلسطینیوں کی صلاحیتوں کو مرکز قرار دیتے ہوئے ایک علاقائی منصوبہ موجود ہے جس کے تحت نہ صرف غزہ اور مغربی کنارہ بلکہ مقبوضہ فلسطین کی تمام سرزمین فلسطینیوں کی ملکیت ہے اور اسے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے قبضے سے آزاد ہونا چاہئے۔ مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں اور دیہاتوں خاص طور پر مغربی کنارے میں جنم لینے والا حالیہ انتفاضہ اسی قسم کی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ فلسطین کا تیسرا یا ایک اور نظر سے چوتھا انتفاضہ کچھ خاص خصوصیات کا حامل ہے جس میں مقبوضہ فلسطین کو اسرائیل کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کروانے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ یہ خصوصیات درج ذیل ہیں:
1)۔ مقبوضہ فلسطین میں جنم لینے والا حالیہ انتفاضہ، بقا کا انتفاضہ ہے۔ ہو سکتا ہے پہلی نظر میں یہ حقیقت سمجھ نہ آئے لیکن اگر ہم حالات کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل قدس شریف کو مسلمانوں سے چھین کر غاصب صہیونی رژیم کے حوالے کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ درحقیقت پورا مقبوضہ فلسطین ہتھیانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کیونکہ جب ایک لڑائی میں کسی کی مقدس ترین چیز دشمن کے قبضے میں چلی جائے تو اپنے پاس موجود دیگر اشیاء کی حفاظت کا محرک ختم ہو جاتا ہے اور باقیماندہ چیزوں پر بھی دشمن کا قبضہ آسان ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف انتفاضہ نے بھی اسرائیل کو شدید مشکل حالات سے دوچار کر رکھا ہے۔ یہ رژیم خطے کے متلاطم حالات میں پرسکون زندگی گزارنے پر قادر نہیں بلکہ حالات کا تقاضا اس کی نابودی ہے۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم یا تو قدس شریف سے فلسطینیوں کو نکالنے میں کامیاب ہو اور اس طرح درحقیقت مسئلہ فلسطین کو ہی دفن کر دے اور یا پھر خطے میں گوشہ نشینی کی حالت جس کا منطقی نتیجہ اس کی نابودی ہے، کو قبول کر لے۔ لہذا اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے پہلا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وہ خود بخوبی آگاہ ہے کہ نہ امریکہ اور نہ ہی اسرائیل اس شدید چیلنج میں کامیاب ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
2)۔ مقبوضہ فلسطین کا حالیہ انتفاضہ وحدت کا انتفاضہ ہے۔ اب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگرچہ تمام فلسطینی گروہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں اتفاق نظر کے حامل تھے لیکن بہت سے دیگر موضوعات پر ان میں شدید اختلافات پائے جاتے تھے۔ مقبوضہ فلسطین کا پہلا انتفاضہ 1987ء میں شروع ہوا اور 1991ء تک جاری رہا۔ ابتدا میں فلسطین کے مذہبی گروہ زیادہ سرگرم نہیں تھے اور اسی انتفاضہ کے دوران فلسطین میں ایک دو مذہبی گروہ ابھر کر سامنے آئے۔ اس پہلے انتفاضہ میں فلسطین اتھارٹی اور اس کے ملٹری ونگ یعنی فتح آرگنائزیشن پر بہت زیادہ بیرونی دباو تھا جس کے نتیجے میں وہ کھل کر انتفاضہ میں شریک نہیں ہوئے۔ لیکن آج چونکہ خود مسئلہ فلسطین دشمن کا نشانہ بن چکا ہے لہذا فلسطین کے تمام مذہبی، قومی و دیگر گروہ میدان میں کود پڑے ہیں۔
یہ امر فلسطینیوں میں ایک بے مثال اتحاد اور وحدت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ مسئلہ فلسطین کے گرد مختلف فلسطینی گروہوں کی یہ وحدت اور اتحاد حالیہ انتفاضہ کے تسلسل اور بقا کا باعث بنے گا۔ دوسری طرف اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کئی سالوں تک جاری رہنے والے مسلسل احتجاج اور دباو کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ ہم نے لبنان کے خلاف اسرائیل کی 33 روزہ جنگ میں دیکھا کہ اسرائیل کے فوجی حکام اس دور کے وزیراعظم اولمرٹ پر بار بار جنگ بند کرنے کیلئے دباو ڈال رہے تھے۔ اسرائیل ایک تھکا دینے والی جنگ اور ٹکراو سے شدید خوفزدہ ہے کیونکہ اسے اپنی بقا کیلئے خطرہ تصور کرتا ہے۔
3)۔ مقبوضہ فلسطین میں جنم لینے والے حالیہ انتفاضہ کی ایک اور خصوصیت اس کی عمومیت ہے۔ پلا انتفاضہ پتھر کا انتفاضہ تھا، دوسرا انتفاضہ فلسطینی میزائلوں کا انتفاضہ تھا، تیسرا انتفاضہ عوامی انتفاضہ تھا۔ پہلا انتفاضہ چار برس تک جاری رہا اور اس کے اہداف مہاجرین کیمپ کی خراب صورتحال کی اصلاح، نسل پرستانہ اقدامات کا مقابلہ اور عوام کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال کو روکنا تھا۔ اس انتفاضہ کے دوران 160 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ دوسرا انتفاضہ بھی چار سال تک جاری رہا۔ 2 اکتوبر 2000ء سے لے کر 8 فروری 2005ء تک جاری رہنے والے اس انتفاضے میں 1069 اسرائیلی ہلاک ہوئے جبکہ 4500 زخمی ہو گئے۔ اس انتفاضہ میں فلسطینیوں نے پہلی بار میزائلوں کا استعمال کیا اور غزہ کی پٹی کے قریب واقع اسرائیلی بستیوں اسدود اور عسقلان کو نشانہ بنایا۔ اس انتفاضہ کو "انتفاضہ الاقصی” کا نام دیا گیا۔ اس انتفاضہ میں حماس اور جہاد اسلامی جیسی تنظیموں نے مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی انتفاضہ کے دوران حماس نے الاقصی، عزالدین قسام اور ابو محمد مصطفی بریگیڈز کی بنیاد رکھی۔ اس انتفاضہ نے امریکہ کے اعتبار اور حیثیت کو شدید دھچکہ پہنچایا۔
مقبوضہ فلسطین میں جنم لینے والا چوتھا انتفاضہ 2015ء میں شروع ہوا۔ چونکہ اس انتفاضہ میں فلسطینیوں نے چھری کا بہت زیادہ استعمال کیا لہذا "انتفاضہ السکین” کے نام سے معروف ہو گیا۔ یہ انتفاضہ آج تک جاری ہے۔ اس انتفاضہ کے آغاز میں معروف فلسطینی گروہ شریک نہ تھے لیکن وہ بہت جلد اس میں شامل ہو گئے۔ اس انتفاضہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں شامل افراد سوشل میڈیا کے ذریعے آپس میں مربوط تھے اور انہوں نے اپنی کاروائیوں میں زیادہ تر چھری چاقو کا استعمال کیا۔ اس انتفاضہ کا مقصد اسرائیلی فوجیوں میں شدید خوف و ہراس پھیلانا تھا۔ اس انتفاضہ کے دوران مقبوضہ فلسطین کے شمالی اور مرکزی حصوں نیز مغربی کنارے میں ہزاروں صہیونی عناصر ہلاک اور زخمی ہو گئے۔ مقبوضہ فلسطین میں شروع ہونے والا حالیہ انتفاضہ گذشتہ تمام انتفاضوں کی خصوصیات کا حامل ہے اور اس میں ماضی کی تمام ٹیکنیکس بروئے کار لائی جا رہی ہیں لہذا اسے "انتفاضہ جامع” کہا جا سکتا ہے۔
4)۔ مقبوضہ فلسطین میں آغاز ہونے والے حالیہ انتفاضہ کا ایک اور اہم پہلو "مزاحمتی پہلو” ہے۔ یہ انتفاضہ وقت اور جگہ کے اعتبار سے اسلامی مزاحمتی بلاک سے متصل ہے۔ اس امر کے کئی شواہد موجود ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ یہ انتفاضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے پر مبنی امریکی – اسرائیلی سازش کے ردعمل میں ظاہر ہوا ہے اور یہ ایسا ایشو ہے جس کی سعودی عرب جیسے بعض عرب ممالک بھی حمایت کر رہے ہیں۔ خطے کے ایسے ممالک اور گروہ جو گذشتہ چالیس برس سے اس امریکی – صہیونی سازش کی شدید مخالفت کرتے آئے ہیں اسلامی مزاحمتی بلاک کا حصہ ہیں۔ لہذا مقبوضہ فلسطین میں جنم لینے والے حالیہ انتفاضہ نے خطے میں موجود محاذ آرائی کے بارے میں فلسطینیوں کا موقف بھی واضح کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قدس شریف کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر درحقیقت فلسطین ایشو اسلامی مزاحمتی بلاک کے حوالے کر دیا ہے۔ یوں حالیہ انتفاضہ نے ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی بلاک کے نقطہ نظر کو اندرونی اور علاقائی سطح پر اپنا مرکز و محور قرار دیا ہے۔
حال ہی میں غزہ میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ یحیی سنوار نے امریکی صدر کے اقدام کے بعد بعض فلسطینی کمانڈرز سے جنرل قاسم سلیمانی کی ٹیلیفونک بات چیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "فلسطینی حالیہ انتفاضہ میں ایران کی توانائیوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔” اسرائیل سے سازباز اور مذاکرات کے ذریعے اختلافات حل کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر کا پیچھے ہٹ جانا اور جہادی عناصر کا بنیادی اہمیت اختیار کر جانا امریکہ اور اسرائیل کو شدید مشکلات سے روبرو کر دے گا کیونکہ دنیا حتی مغرب میں فلسطین کی بہت زیادہ حمایت پائی جاتی ہے اور آج کے بعد جب بھی دنیا کے کسی کونے میں فلسطین کے حق میں کوئی آواز بلند ہو گی وہ ایک طرح سے اسلامی مزاحمتی بلاک کی حوصلہ افزائی بھی قرار پائے گی۔ یہ امر ان اسلام مخالف اور ایران مخالف پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے جو گذشتہ چند عشروں سے امریکہ اور اسرائیل نے خطے میں اپنا رکھی ہیں۔
5)۔ حالیہ انتفاضہ میں فلسطین اتھارٹی کا ملٹری ونگ فتح آرگنائزیشن بھی فلسطین کے دیگر جہادی گروہوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ اگر غور کریں تو دیکھیں گے کہ حالیہ انتفاضہ کا مرکز مغربی کنارے میں واقع ہے جبکہ اس علاقے میں حماس اور اسلامک جہاد کا زیادہ اثرورسوخ نہیں اگرچہ وہاں کی اکثریت انہی دو گروہوں کی حامی ہے۔ مغربی کنارہ سیاسی اور سکیورٹی نقطہ نظر سے روایتی طور پر فتح آرگنائزیشن کا گڑھ رہا ہے اور فلسطین اتھارٹی کے زیر اثر ہے۔ اس سے پہلے جب بھی مغربی کنارے میں اسرائیل مخالف مظاہرے اور احتجاج جنم لیتا تھا محمود عباس کی سربراہی میں فلسطین اتھارٹی کی پولیس اور سکیورٹی فورسز سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی تھیں۔ لیکن اب جب خود فتح آرگنائزیشن بھی حالیہ انتفاضہ کے ساتھ ہے تو جہادی گروہوں کو اپنی سرگرمیاں بہتر انداز میں انجام دینے کا سنہری موقع ملے گا۔ فتح، حماس، اسلامک جہاد اور دیگر فلسطینی گروہوں کے درمیان حالیہ انتفاضہ کے دوران انجام پانے والے تعاون سے ظاہر ہوتا ہے ان کے درمیان اہم معاہدات انجام پا چکے ہیں اگرچہ ابھی تک رسمی طور پر کوئی معاہدہ سامنے نہیں آیا۔