واشنگٹن – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) تنظیم آزادی فلسطین [پی ایل او] نے کہا ہے وہ تاریخی ارض فلسطین میں ایک ہی ریاست کے قیام کے تصور کے خلاف نہیں۔ امریکا میں متعین پی ایل او کے مندوب نے دو ہفتے قبل جنرل اسمبلی کے اجلاس سے صدر محمود عباس کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اپنے ملک میں دو بجائے ایک ریاست کو قبول کرسکتے ہیں۔
تنظیم آزادی فلسطین کے نمائندے حسام زملط نے نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ایل او‘ فلسطین میں دو ریاستی حل کو زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ یہ وہ تصور ہے جسے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک، عالمی برادری اور خود امریکا بھی دو ریاستی حل کے حامی ہیں۔ انہوں نےساتھ یہ وضاحت بھی کی کہ دو ریاستی حل کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی اپنی وطن کے ایک حصے سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ یہ حل اہم ضرور ہے مگر فلسطینیوں کا آخری مطالبہ نہیں۔امریکا کی کوششیں
تنظیم آزادی فلسطین کے مندوب نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیشہ یہ تاثر دیا ہے کہ وہ ایک ’بڑے‘ حل کے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہوں نے نیویارک میں فلسطینی صدر محمود عباس کے موقف کو بھی انہماک سے سنا۔ اب فلسطینیوں کو انتظار ہے کہ امریکی ٹیم صدر عباس کی تجاویز کا کیا جواب دیتی ہے اور یہ کہ حتمی مذاکرات کی شکل کیا ہوگی۔
امریکی انتظامیہ کی طرف سے فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے حل کے حوالے سے کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ امریکی صدر کے معاون خصوصی جیسون گرین بلٹ اور صدر کے داماد گریڈ کوشنر مشرق وسطیٰ میں مذاکرات کی بحالی کے موضوع پر بات کرنے والی ٹیم میں توسیع کررہے ہیں۔ امریکی انتطامیہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے ’مارشل یورپی‘ بڑے اقتصادی منصوبوں پر بھی غور کررہی ہے۔ مگر امریکا کی طرف سے اگر کوئی بات واضح نہیں تو وہ یہی کہ آیا موجودہ امریکی صدر فلسطین میں ایک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں یا دو ریاستیں قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔
حسام زملط نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکی صدر کے معاون خصوصی انہی خطوط پر کام کررہے ہیں جن کی طرف صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو کے ساتھ پہلی ملاقات میں اشارہ کیا تھا۔ وہ یہ امریکا وہی فیصلہ قبول کرے گا جس پر دونوں فریقوں کا اتفاق رائے ہوگا۔ تاہم زملط کا کہنا ہے کہ اب معاملہ دو فریقین کے اتفاق رائے کا نہیں بلکہ امریکا کو چاہیے کہ وہ بتائے کہ وہ اس کا فیصلہ کیا ہے۔ اسے یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا وہ فلسطین میں فلسطینی اور یہودی اقوام کے لیے الگ الگ ریاستوں کے قیام کا حامی ہے یا دونوں قوموں کے لیے ایک ہی ریاست کا طرف دار ہے۔
مکمل حقوق یا کامل خود مختاری
اس سوال پر کہ اگر امریکا فلسطین میں ایک ہی ریاست کے قیام کی حمایت کرے تو فلسطینیوں کا کیا موقف ہوگا؟ اس پر حسام زملط نے کہا کہ فلسطینی اس شرط پر ایک ہی ریاست کا تصور قبول کرلیں گے کہ انہیں دوسری قوم (یہودیوں) کے مساوی تمام حقوق حاصل ہوں۔
اگر دو ریاستی حل کا تصور قابل عمل ہے تو فلسطینی قوم کو ایک ایسی خود مختار ریاست ملنی چاہیے جس میں بیت المقدس کو دارالحکومت کا درجہ حاصل ہو۔ اسرائیل سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں سے نکل جائے اور ان علاقوں پر مشتمل خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے۔ دو ریاستی حل کی صورت میں فلسطینی سنہ 1967ء کی حدود میں اسرائیل کےایک فوجی کو بھی گوارا نہیں کریں گے تاہم کسی دوسرے ملک کی فوج مثلا امریکی فوج، یا نیٹو کی فوج کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی موجودگی کا مطلب اسرائیلی ریاست کا قبضہ تصور کیا جائے گا۔
پہلے امن پھر تعلقات
فریقین کے مذاکرات کی میز کی طرف آنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسرائیل کے حامی سابق مذاکرات کار ڈینس روس کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ امریکی انتظامیہ کچھ ایسے اقدامات اٹھائے جن میں اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی راہ ہموار ہوسکے۔ یہ تعلقات فریقین کے درمیان مذاکراتی مراحل کے دوران بھی قائم ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل بھی اس تجویز کو مفید خیال کرتے ہوئے پیچھے ہٹنے کو تیار ہے۔
مگر دوسری طرف فلسطینی عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کےقیام کے حامی نہیں۔ تنظیم آزادی فلسطین کے مندوب کا کہنا ہے کہ تعلقات امن کے نتائج کا حصہ ہونے چاہئیں۔ جب تک فلسطینیوں کو ان کے حقوق نہیں مل جاتے اس وقت تک فلسطینی قوم عرب دنیا کے اسرائیل کے ساتھ خوش گوار تعلقات کے قیام کی حمایت نہیں کرے گی۔ فلسطینیوں کو خدشہ ہے اسرائیل عرب ممالک سے تعلقات کے قیام کی چال استعمال کرے گا۔ دوسری جانب خود عرب ممالک بھی پہلے امن اور پھر اسرائیل سے تعلقات کے قیام کے اصول پر قائم ہیں۔
فلسطینی مندوب کا کہنا تھا کہ حماس اور تحریک فتح کا مشترکہ سیاسی روڈ میپ کے لیے مصر کی نگرانی میں بات چیت کرنا اہم پیش رفت ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے غزہ میں واپسی کے بعد اسرائیل کے پاس فلسطینیوں کے باہمی اختلافات کو جواز بنا کر بات چیت سے فرار اختیار کرنے کا بہانہ اب ختم ہوچکا ہے۔