جنین – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں ’اریحا کی صحرائی مکھی‘ سےپھیلنےوالی بیماری’الشمانیا‘ حسب سابق ایک بار پھر فلسطینیوں پرحملہ آور ہے۔ الشمانیا ایک متعدی جلدی مرض ہے جس کا کوئی مستند علاج بھی سامنے نہیں آیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے ابتدائی جراثیم ہندوستان سے عرب ممالک میں منتقل ہوئے۔ اس مرض کے شکار مریضوں کی تعداد لاکھوں میں بیان کی جاتی ہے۔ ان میں بھارت، بنگلہ دیش، شام، فلسطین اور دوسرے ممالک میں موجود ہیں۔’الشمانیا‘ کیا ہے؟
فلسطین میں یہ مرض’الشمانیا‘ کے نام سے مشہور ہے۔ سائنسی میدان میں اسے اریحا کی مکھی بھی کہا جاتا ہے۔ متعدی انداز میں تیزی کے ساتھ پھیلنے والا یہ مرض انتہائی خطرناک ہے۔ اس کی شدت کے مختلف درجے اور آخری درجہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔
فلسطین کے شہر جنین میں یہ بیماری موسم بہار کے ساتھ آتی ہے۔ اس وقت جنین میں اس بیماری سے متاثرہ مریضوں کی تعداد دو درجن کے لگ بھگ ہے۔ یہ بیماری اسی سیزن میں اہل فلسطین پر یلغار کرتی ہے۔
سب سے زیادہ متاثرہ فلسطینی علاقہ طوباس ہے جہاں کئی بچے اور خواتین اس مہلک جلدی مرض کا شکار ہیں۔
’اریحا کی مکھی‘ کی بیماری کے نام سے مشہور اس کی مرض کی وجہ ایک چھوٹے جسامت کی مکھی ہے جو عمومی مکھیوں سے تین گنا جسامت میں چھوٹی ہوتی ہے۔ ان مکھیوں میں سے بیشتر کی جسمات مچھر سے بھی چھوٹی ہوتی ہے۔ زرد رنگ کی مکھی زیادہ تر رات کے اوقات میں متحرک ہوتی ہے۔
اس مکھی کی کوئی واضح پہچان نہیں کی جاسکتی۔ رنگ زرد ہے مگر اس کی بھنبنھاہٹ کی کوئی آواز نہیں ہوتی۔ مچھر یا مکھی کی طرح کان کے قریب آنے پر اس کی آواز نہیں سنی جاتی۔ اس لیے اس سے بچنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ قوت مدافعت کی کم زوری کا شکار افراد بالخصوص بچے اور بوڑھے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اس مکھی کے ایک بار ڈسنے سے جسم میں ایک پھوڑا بنتا ہے جو رفتہ رفتہ پھیلنے کے ساتھ ایک چھالے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پھر یہ پھوڑا چھالے ہی کے انداز میں پھٹتا ہے اور اس سے نکلنے والا خون اوردیگر مواد اطراف میں پھیل کر ایک بڑے پھوڑے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کے نتیجے میں یہ بیماری طول بھی پکڑ سکتی ہے۔ بعض اوقات چھ ماہ یا سال تک بھی اس سے جان چھڑانا مشکل ہوتا ہے۔
مقامی آبادی کی پریشانی
فلسطین میں موسم بہار کے قریب آتے ہی طوباس کے شہری ہرسال ’الشمانیا‘ جلدی بیماری کے خطرات سے پریشان ہوجاتے ہیں۔ پریشانی کی ایک ٹھوس وجہ بیماری کے بچاؤ کے لیے تدابیر اور علاج کا نہ ہونا ہے۔ طوباس کےایک مقامی شہری علی دراغمہ نے بتایا کہ متعلقہ حکام بیماری پھیلانے والی مکھی اور بیکٹیریا کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات نہیں کرتے جس کے نتیجے میں جلدی بیماری تیزی کے ساتھ پھیلتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ Â اریحا مکھی کے Â کئی ٹھکانے ہیں۔ وادی اردن اور رطوبت والی غاریں ان مکھیوں کا اہم ترین ٹھکانہ ہیں جہاں ان کی افزائش نسل ہوتی ہے۔ ہر سال لوگوں کو یہ بیماری مڑ مڑ کر حملوں کا نشانہ بناتی ہے۔ سالانہ سیکڑوں بچے اور بڑی عمرکے افراد اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں۔ فلسطینی آبادی کے پاس اس مکھی سے نجات اور تحفظ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔
ایک دوسرے مقامی شہری احمد صوافطہ نے تبایا کہ مہلک مکھی نے فلسطینیوں بالخصوص بچوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک مکھیوں کے ٹھکانوں میں ان کی افزائش نسل کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے جاتے تب تک اس بیماری کے خطرات نہ صرف موجود رہیں گے بلکہ فلسطینی شہری اس کا شکار بھی ہوتے رہیں گے۔
چٹانی بجو یا افریقی صحرائی خرگوش
خیال یہ کیا جاتا ہے کہ فلسطین میں ’الشمانیا‘ جلدی بیماری کے دیگراسباب میں کلیدی سبب چٹانی بجو کو بھی سمجھا جاتا ہے۔ ’چٹانی بجو‘ کی شکل خرگوش سے کافی حد تک مشابہت رکھتی ہے۔ اس لیے اسے افریقی ملکوں کا خرگوش بھی قرار دیا جاتا ہے۔
مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ چٹانی بجو زمین میں اپنے رہنے کے لیے گڑھے کھودتا ہے اور ان گڑھوں میں ’اریحائی مکھی‘ کو نشو نما پانے کاموقع ملتا ہے۔
مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ الشمانیا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے اس کا سبب بننے والی مکھی کو تلف کرنا اور اس کی افزائش نسل کے ٹھکانوں کو تباہ کرنا ہوگا۔ ان کی افزائش نسل جن گڑھوں اور غاروں میں ہوتی ہے۔ ان غاروں کو ختم کرنا ہوگا۔
دوسری طرف تحفظ حیوانات اور ماحولیات کی حفاظت کے لیے کام کرنے والے ادارے ’چٹانی بجو‘ کو ختم کرنے اور ان کے ٹھکانوں کو مسمار کرنے کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک جنگی جانور کو جلدی مرض کا سبب بننے کی وجہ سے ختم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ حکومت کوچا ہیے کہ بیماری کی روک تھام کے لیے متبادل ذرائع اختیار کرے۔