فتح کے بانی رہ نما یاسر عرفات [مرحوم] نے تو فلسطینیوں کے حق واپسی کو’قضیہ فلسطین کا جوہر‘ قرار دیا تھا مگر سنہ 1994ء میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام اور نام نہاد ‘اوسلو‘ معاہدے کے بعد فتح کی قیادت نے جو حق واپسی کے حوالے سے جو پالیسی اپنائی وہ فلسطینی قوم کے دیرینہ مطالبات سے اںحراف پرمبنی ہے۔
فلسطین میں ’تنظیم آزادی‘ کا قیام تو بہرحال ایک مثبت قدم تھا۔ مگر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ’پی ایل او‘ پر ایسی قیادت مسلط ہوگئی جس حق واپسی کو عملا ساقط کردیا۔ رفتہ رفتہ فتح کی قیادت اور پی ایل او نے اپنا رخ تبدیل کرتے ہوئے اوسلو معاہدے کے سحر کا کچھ ایسے شکار ہوئی کہ آج فتحاوی قیادت کی زبان سے حق واپسی کا نام تک سننے کو نہیں ملتا۔
اقوام متحدہ نے 11 دسمبر 1948ء کو قرارداد 194 منظور کی میں اقوام متحدہ کے زیرانتظام فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے، بیت المقدس کو بین الاقوامی نظام میں شامل کرنے، دیر پا امن کے قیام کے لیے فلسطینی مہاجرین کی ان کے گھروں کو واپسی کی سفارش کی گئی تھی۔
نمائشی طور پر سنہ 1950ء میں اسرائیل نے فلسطینیوں کے حق واپسی کو قبول کیا اور’ڈیوڈ بن گوریون‘ نے 50 ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا فارمولہ قبول کیا تھا۔ سنہ 1974ء کو فلسطینیوں کے حق واپسی کے لیے 10 نکاتی فارمولہ پیش کیا گیا جس کے تحت کہا گیا تھا کہ فریقین مذاکرات میں اسرائیل کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کریں۔
سنہ 1994ء میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام اور معاہدہ اوسلو کے بعد اسرائیل نے غرب اردن اور بیت المقدس میں بڑے پیمانے پر یہودی آباد کاری کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کے ساتھ فلسطینیوں کے حق واپسی کومذاکرات کے ایجنڈے سے بھی نکال دیا گیا۔ سنہ 2002ء میں عرب ممالک کی طرف سے تنازع فلسطین کے حل کے لیے امن فارمولہ جاری کیا گیا۔ اس فارمولے میں بھی فلسطینیوں کے حق واپسی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا مگر صہیونی ریاست نے اسے یک جنبش قلم مسترد کردیا۔
دوغلی پالیسی
اوسلو معاہدے کے بعد گذشتہ بیس سال کے دوران فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان نام نہاد امن مذکرات کے کئی دور ہوئے۔ ان تمام ادوار میں مذاکرات کے ایجنڈے میں ’حق واپسی‘ کا کوئی وجود نہیں تاہم تنظیم آزادی فلسطین کے ایجنڈے پر یہ حق آج بھی موجود ہے۔ گویا عملا جب فلسطینیوں کے حق واپسی کی بات آئی تو فتحاوی قیادت نے خاموشی اختیار کی جب کہ عوام کو دکھانے کے لیے جماعت اور پی ایل او میں اسے بدستور شامل رکھا۔
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر فائز ابو شمالہ کہتے ہیں کہ تحریک فتح دو متوازی موقف پر چل رہی ہے۔ عوام کے سامنے تحریک فتح حق واپسی کی بات کرتی ہے مگر جب اسرائیل کے ساتھ بات چیت کا مرحلہ آتا ہے تو یہ کہہ کر بات گول کردی جاتی ہے کہ مذاکرات میں تشدد کا راستہ مناسب نہیں۔
انہوں نے کہا کہ بن گوریون کے دور میں اسرائیل نے قرارداد 181 کے نفاذ اور 50 ہزار فلسطینیوں کی واپسی کا عہد کیا تھا مگر اس پرعمل درآمد نہیں ہوا۔ سنہ 2002ء میں عرب ممالک کے امن فارمولے کو بھی مسترد کردیا گیا۔ اس کے بعد یہ امکان موجود ہے کہ مستقبل میں فلسطینی قوم کا یہ اہم اور دیرینہ حق ساقط ہی نہ کردیا جائے۔
دس نکاتی پلان
سنہ 1974ء کو اسرائیل کی طرف سے قیام امن کے لیے 10 نکاتی فارمولہ پیش کیا گیا تھا۔ اس فارمولے میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی شرط پر فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا اشارہ دیا گیا۔ تحریک فتح بہ تدریج اپنے موقف سے پیچھے ہٹی چلی گئی۔ آج یہ عالم ہے کہ صدر محمود عباس اعلانیہ کہتے ہیں کہ صفد شہر کا دورہ ان کا حق ہے مگر وہاں آباد ہونا ان کا حق نہیں۔
محمود عباس کا آبائی تعلق سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہر الصفد سے ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالستار قاسم کا کہنا ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین کی قیادت تحریک فتح کے ہاتھ میں ہے مگر وہ ’دو ریاستی حل‘ کی رٹ تک محدود ہے۔ فتح کی قیادت یہ بھول گئی ہے کہ دو ریاستی حل فلسطینیوں کےحق واپسی کے بغیر ممکن نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فتحاوی قیادت زبانی کلامی تو حق واپسی کی حمایت کرتے ہیں مگر اس حق کےحصول کے لیے اصرار کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا۔ اسرائیل کی سیادت کو تسلیم کرنا فلسطینیوں کے حق واپسی کا متبادل نہیں مگر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ فلسطینیوں کے حق واپسی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اس سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گی۔
ڈاکٹر قاسم کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد 194ء محض ایک سفارشی ہے جس میں فلسطینیوں کے حق واپسی کی اجازت تو دی گئی مگر اسرائیل کو فلسطینیوں کو واپس وطن میں آباد ہونے کا حق دینے پر مجبور نہیں کیا گیا ہے۔ فتح کی قیادت بھی عوامی جلسوں اور ابلاغی میدان میں حق واپسی کی بات کرتی ہے مگر بھلا یہ کیسا مطالبہ ہے دوسری طرف فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی ادارے تو اسرائیل کے ساتھ تعاون کررہے ہیں اور اس تعاون کے عوض مغرب انہیں امداد فراہم کرتا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں نے 200 مرتبہ حق واپسی کی حمایت میں ووٹ حاصل کیے۔ عالمی برادری کا فلسطینیوں کے حق واپسی پر اجماع ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی اپنے ملک کے علاوہ جزیرہ سینا، کینیڈا، شام یا کسی بھی دوسرے ملک میں مستقل آباد کاری کے فارمولے کو مسترد کیا جا چکا ہے۔
قرارداد 194ء پر عمل درآمد کے لیے اقوام متحدہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے الگ سے ریلیف ایجنسی ’اونروا‘ قائم کی تاکہ فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے ساتھ ساتھ ان کے مطالبے کو عملی شکل دینے کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔
اوسلو معاہدہ اور حق واپسی
تنظیم آزادی فلسطین میں کلیدی جماعت کی حیثیت سے فتح نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا مگر اس معاہدے میں فلسطینیوں کے حق واپسی کی کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ ہی آزاد فلسطینی ریاست کا کوئی مطالبہ شامل ہے۔ فلسطینیوں کے حق واپسی کو تنازع کے آخری مراحل میں شامل کرنے کی بات کرکے اس اہم ایشو کو نظرانداز کیا گیا۔
ڈاکٹر عبدالستارقاسم کا کہنا ہے کہ اوسلو معاہدے کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فتحاوی فیصلہ جماعت کی سیاسی شکست ثابت ہوا ہے کیونکہ پی ایل او اور فتح فلسطینیوں کے حق واپسی، اقوام متحدہ کی قرارداد 242 اور دیگر سابقہ قراردادوں پر عمل درآمد میں ناکام رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عرب ممالک کی طرف سے بھی فلسطینیوں کے حق واپسی پر کوئی جرات مندانہ موقف نہیں اپنایا گیا۔ سنہ 1974ء میں حق واپسی کواسرائیل کی طرف سے تسلیم کئے جانے کے باوجود نہ صرف یہ حق نہیں دیا گیا بلکہ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو بھی سرد خانے میں ڈالا گیا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار رمزی رباح کا کہنا ہے کہ اوسلو معاہدے نے فلسطینیوں کے حق واپسی پر کاری ضرب لگائی۔ اس معاہدے میں حق واپسی کو تمام تصفیہ طلب مسائل کی فہرست میں آخر میں رکھا گیا۔ اب امریکا اور اسرائیل اقوام متحدہ کی قرارداد 194 کو بائی پاس کرتے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کو دوسرے ملکوں میں آباد کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس اور تحریک فتح کی موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے فلسطینیوں کے حق واپسی کویقینی بنانے کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ فتحاوی قیادت کی ترجیحات میں ’حق واپسی‘ شامل نہیں۔ سنہ 2002ء کے ترمیم شدہ عرب فارمولے میں بھی حق واپسی کی قرارداد 181 پرعمل درآمد کا مطالبہ شامل نہیں کیا گیا۔