مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) غزہ کی پٹی کی مشرقی سرحد پر 30 مارچ 2018ء سےجاری تحریک حق واپسی اور اس سلسلے میں ہونے والے مظاہروں میں صیہونی سیاسی،عسکری اور ابلاغی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ غزہ کی پٹی میں جاری اس تحریک کو کیسے کم زور کیا جائے۔
عبرانی اخبار ’معاریو‘ سے بات کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کے سابق کمانڈر جنرل آیال آئزنبیرگ نے کہا کہ ’غزہ کی پٹی کے عوام کے لیے اسرائیل کی طرف سے متوقع سہولیات بھی ہمارے حوالے سے جاری فلسطینیوں کی حکمت عملی تبدیل نہیں کرسکیں گی کیونکہ فلسطینیوں نے ہمارے اوپر بندوق اور جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ ہم بند گلی میں جا چکے ہیں اور اس بندش کو کئی سال گذر چکے ہیں۔ اس لیے حالات کو بہتر ڈگر پرلانے کے لیےگیم اور کھلاڑیوں کےمسائل میں جوہری تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔جنرل ایال کے اس انٹرویو کو عرب ویب سائیٹ ’21‘ نے عربی میں ترجمہ کیا۔ جنرل ایال کا کہنا ہے کہ غزہ کیÂ پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کی واپسی ناگزیر ہے اور آئندہ فریقین (فلسطینیوں اوراسرائیل) کےدرمیان مذاکرات کی ایک اہم شرط غزہ میں جنگی قیدیوں کی رہائی ہونی چاہیے۔ میرے خیال میں موجود حالات کوئی جوہری تبدیلی نہیں لاسکتے اور نہ ہی غزہ کے عوام کو سہولیات دینے سے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی حکمت عملی میں کوئی جوہری تبدیلی آسکتی ہے۔ ہمیں آخر کار حماس سے نمٹنا ہے اور اس کی حامی اسرائیل دشمن تنظیموں کو بھی دیوار سے لگانا ہے۔
اسرائیلی فوجی جنرل کا مزید کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی کے عوام کو ضروری سہولیات دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ کینسر کے مرض کے شکار کسی مریض کو اس کا علان کرنے کے بجائے محض درد کش گولیاں دے کر اسے آرام دلانے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح مرض ختم نہیں ہوسکتا۔ بعینہ غزہ کے حالات کو سدھارنے کے لیے بھی اسرائیل کو جوہری اقدامات کرنا ہوں گے۔
انہوں نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے فلسطینیوں کی واپسی اسرائیل کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے اور اسرائیل کو روز مرہ کی بنیاد پر اس پر پیش رفت کرنی چاہیے۔
اسرائیلی فوج کے ایک دوسری سابق جنرل اور عسکری امور کے تجزیہ نگار جنرل تالف لیف رام نے ’معاریو‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کا خیال ہے کہ غزہ کی سرحد پر جاری احتجاجی تحریک بہ تدریج کم ہوجائے گی تاہم دوسری طرف خطے میں کارروائیوں کے حجم میں مزید اضافہ ہوگا اور حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوج محتاط انداز میں خوش فہمی کا شکار ہے کہ غزہ میں جاری عوامی مزاحمتی ریلیوں کی شدت میں کمی آئے گی۔ دوسری طرف فوج کے بعض حلقے اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ غزہ کی سرحد پر جاری احتجاجی تحریک کے دائرے میں وسعت آسکتی ہے اور یہ احتجاج غزہ کی پٹی کی پوری سرحد پر پھیل سکتا ہے۔
جنرل عمیرام لیوین سدرن کمانڈ کے سابق سربراہ ہیں نے اخبار ’اسرائیل ٹوڈے‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل حماس کے خلاف جاری اعصابی جنگ میں کامیاب کا مطالبہ کررہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس گذشتہ کچھ عرصے سے دو آئیڈیاز پر عمل پیرا ہے۔ یہ دونوں عسکری آئیڈیاز کمزوروں کے خلاف طاقت ور کی جنگ اور دوسرا اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے صیہونی ریاست پرحملے شامل ہیں۔
اپنے ایک طویل مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ حماس اسرائیل کے خلاف نفسیاتی اور اعصابی جنگ کی حالت میں ہے اور وہ باقاعدہ جنگ میں عجلت نہیں چاہتی تاہم حماس آئے روز اسرائیل کےداخلی حفاظتی حصار میں نقب لگانے میں کامیاب ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس کی جنگی حکمت عملی اور مزاحمتی وسائل میں ماضی کی نسبت کافی تنوعÂ آیا ہے۔ اس کا ثبوت غزہ کی پٹی کے گرد صیہونی کالونیوں پر راکٹ حملوں سے لی جاسکتی ہے۔ حماس نے غزہ کی سرحد پر عوام کی بڑی تعداد جمع کرکے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ حماس کا یہ مزاحمتی طریقہ نفسیاتی جنگ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر دوبارہ فوجی قبضے کی ضرورت نہیں۔ اسرائیل بعض دوسرے وسائل اور ذرائع اختیار کرکے صیہونی ریاست کے خلاف اپنی فتح و کامرانی کا اظہار کرسکتی ہے۔
اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمنٹ) کے رکن اریہ الداد نے معاریو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ماہرین اور سیکیورٹی حکام غزہ کی پٹی کے عوام کو معاشی سہولیات اور ریلیف فراہم کرنے پر زور دے رہے ہیں مگر میرے خیال میں یہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ حماس کی قیادت کو قاتلانہ حملوں میں شہید کرنا زیادہ مناسب حل ہے۔ اسی طریقےسے ہم غزہ کی مشرقی سرحد پر جاری عوامی مزاحمتی تحریک کو دبا سکتے ہیں۔