غزہ ( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے عوام جبرو ستم کے جس نہ ختم ہونے والے سلسلے کا سامنا کررہے ہیں اس کے ختم ہونے کے آثارکم ہی دکھائی دیتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب عالم اسلام میں ماہ صیام سایہ فگن ہے کہ غزہ کے عوام خون کی ہولی کا سامنا کررہے ہیں۔ 30Â مارچ 2018ء کے بعد غزہ میں فلسطینی عوام نے عظیم الشان حق واپسی تحریک شروع کی تو عالمی سطح پر اس کی حمایت کی گئی۔ قابض صہیونی ریاست نے پرامن فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال شروع کیا۔ اب تک 110 فلسطینی شہید اور 12 ہزار فلسطینی زخمی کیے جا چکے ہیں۔ماہ صیام عالم اسلام کے لیے خوشیوں اور برکات کا مہینا ہے، مگر فلسطینی قوم ان برکات سے محروم ہیں۔ اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ ناکہ بندی کے باعث غزہ میں معاشی سرگرمیاں ماندھ پڑ چکی ہیں۔ شہریوں کے پاس بنیادی ضرورت کی اشیاء کی خریداری کے لیے بھی پیسے نہیں۔ بے روزگاری اور غربت نے غزہ کے عوام کے تمام کس بل نکال دیے ہیں۔
غزہ کے مظلوم عوام نہ تو ماہ صیام کی آمد کا جشن منا سکے اور نہ ہی خوشی میں چراغاں کا اہتمام کیا گیا۔ اگر کہیں ایسا کرنے کا ارادہ بھی تھا کہ تو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی نے فلسطینیوں کو غم واندوہ میں ڈال دیا۔
قدغنیں اور تن خواہیں
غزہ کی مسلسل اور تباہ کن ناکہ بندی، اسرائیلی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینیوں کی شہادت اور ہزاروں کے زخمی ہونے کے واقعے نے پوری قوم کو صدمے سے دو چار کر رکھا ہے، مگر اس سب کے باوجود فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے انتقامی پالیسی میں کوئی نرمی نہیں برتی گئی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مسلسل مطالبات کے باوجود فلسطینی اتھارٹی اپنی انتقامی روش سے باز نہیں آ رہی۔ غزہ کے ہزاروں سرکاری ملازمین اور ان کے خاندان قانونی مشاعروں اور تنخواہوں سے محروم ہیں۔
یہ پہلا ماہ صیام ہے جب غزہ کے سرکاری ملازمین کو مکمل طور پر تن خواہوں سے محروم کردیا گیا ہے۔ بعض سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 سے30 فی صد کمی آئی ہے۔
واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے غزہ کی پٹی کے عوام کے خلاف گذشتہ برس انتقامی اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ ان اقدامات میں غزہ کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 سے 50 فی صد تک کمی کا حربہ بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ غزہ کی پٹی کو فراہم کی جانے والی ادویات اور بجلی بھی کم کر دی گئی۔ ان تمام اقدامات کا براہ راست اثر مقامی فلسطینی آبادی پر پڑا ہے۔
بازار ویران
بازاروں میں دکانداروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اشیائے صرف تو موجود ہیں مگر گاہکوں کی قوت خرید محدود ہے۔ اسرائیلی پابندیوں اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے انتقامی پالیسیوں کے مسلط کیے جانے کے باعث غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
مزید ستم یہ کہ صیہونی ریاست کی طرف سے غزہ کی پٹی میں جاری تحریک واپسی کے مظاہرین پر حملوں نے فلسطینی قوم کو بدترین صدمے سے دوچار کردیا ہے۔ فلسطین میں سوموار کے روز 60 فلسطینیوں کو شہید کیا گیا اور تین ہزار فلسطینی زخمی ہوگئے۔ فلسطین میں اس قتل عام کے خلاف قوم آج بھی سوگ منا رہی ہے۔
غزہ کی پٹی کی دو ملین آبادی میں سے 80 فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ غزہ میں بے روزگاری کی شرح 46.4 فی صد ہے جب کہ مجموعی طور پر 2 لاکھ 43 ہزار غزہ کے فلسطینی بے روزگار ہیں۔