ٹرمپ کی اسرائیل کو کلین چٹ
اسرائیلی حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ کی جانب سے غرب اردن کے علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان امریکی صدر ڈونلڈÂ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو صیہونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے مجرمانہ اعلان کے چند ہفتے بعد سامنے آیا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’لیکوڈ‘ کے اعلان کو ٹرمپ کے اعلان القدس کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے القدس کے بارے میں ایک متنازع اعلان کرکے گویا اسرائیل کو فلسطینی اراضی پر غاصبانہ قبضے کو توسیع دینے کی کلین چٹ دے دی تھی۔
فلسطینی تجزیہ نگارÂ اورعالمی قانون کے ماہر رائد ابو بدویہ نے کہا کہ صیہونی ریاست سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں کےحوالے سے عالمی قوانین کی بار بار خلاف ورزیاں کر رہا ہے۔
فلسطین میں صیہونی توسیع پسندی کے امور کے ماہر محمد الیاس کا کہنا ہے کہ ہم ایک عرصے سے اسرائیلی حکومتی عہدیداروں کی زبانی یہ سنتے چلے آر رہے تھے کہ اسرائیل غرب اردن کو اپنی عمل داری میں لینے کے لیے مختلف منصوبوں پرکام کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’لیکوڈ‘ کا فیصلہ غرب اردن میں اسرائیل کے عملی اقدامات کا ایک نچوڑ ہے۔ اسرائیل غرب اردن کے معاملے میں عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ عالمی قانون کی رو سے غرب اردن پر اسرائیل کا کنٹرول عبوری اور محض عارضی ہے اور اسے کسی بھی حالت میں غرب اردن پر اپنے قوانین نافذ کرنے کا اختیار نہیں۔
خیال رہے کہ حال ہی میں اسرائیلی حکمران جماعت ’لیکوڈ‘ کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے رائے شماری کی گئی۔ رائے شماری میں 3700 ارکان نےحصہ لیا۔’لیکوڈ‘ سے منظوری کے بعد اب صیہونی حکومت اس فیصلے کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کرے گی۔ اسرائیل کے عبرانی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ میں بھی ’لیکوڈ‘ کی اکثریت ہے، اس لیے اسے قانونی شکل دینے میں کوئی بڑی رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لیکوڈ کے ارکام پارلیمان کنیسٹ میں اس فیصلے کو قانونی شکل دینے کے لیے کردار ادا کرنے کے پابند ہیں۔
نام نہاد قانونی حربوں کا تسلسل
فلسطینی تجزیہ نگار ابودیہ کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست نے غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کے لیے گذشتہ چار پانچ سال سے کام شروع کر رکھا تھا۔ اسرائیل غرب اردن میں قائم صیہونی کالونیوں میں اپنا ریاستی قانون مرحلہ وار نافذ کرنے کے لیے کوشاں رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پراسرائیل کا لیبر قانون غرب اردن کی صیہونی کالونیوں پر نافذ نہیں تھا کچھ عرصہ پیشتر صیہونی ریاست نے غرب اردن میں فلسطینیوں اور صیہونیوں کے لیے یکساں لیبر کورڈ کی منظوری دی، حالانکہ متنازع علاقے ہونے کے باعث اسرائیل غرب اردن میں ایسی کسی سرگرمی کا مجاز نہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار اور مزاحمت برائے صیہونی آباد کاری کمیٹی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل جو کچھ کررہا ہے وہ سراسر استعماری اور غاصبانہ پالیسی ہے۔ استعمار ہمیشہ قانونی اور بنیادی ڈھانچے کی تبدیلی کے عمل پر قائم رہتا ہے۔ نئی نئی کالونیاں تعمیر کرتا، اراضی غصب کرتا، عسکری ہتھکنڈے استعمال کرتا اور نسل پرستانہ پالیسیوں پر عمل درآمد کرتا ہے۔ یہ سب کچھ صیہونی ریاست دن رات کررہی ہے۔
اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل نے سنہ 2014ء کے آخر تک غرب اردن میں 5 لاکھ 99 ہزار 901 صیہونی آباد کردیے تھے۔
امن مساعی کے دروازے بند
فلسطینی تجزیہ نگار ابو بدویہ نے کہا کہ ’لیکوڈ‘ کے اعلان نے مذاکرات کے تمام دروازے بند کردیے ہیں۔ اس کے بعد اوسلو سمجھوتے کو منسوخ کرنے اور امن عمل کے سراب کو الوداع کہنے کے اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ اسرائیل نے غرب اردن کو نام نہاد صیہونی ریاست میں ضم کرکے سرخ لکیر عبور کردی ہے۔’لیکوڈ‘ کے اس اعلان نے فلسطینیوں کے سامنے ایک نیا چیلنج کھڑا کردیا ہے۔
ابو بدویہ نے کہا کہ اسرائیلی ریاستÂ اور ’لیکوڈ‘Â کے اقدامات کے بعد فلسطینیوں کے پاس سیاسی اور مزاحمتی اتحاد کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا ہے۔ فلسطینی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کے بعد عرب ممالک، یورپی یونین اور دوسرے با اثر ممالک سے رجوع کرتے ہوئے ٹرمپ اور اسرائیل کے خلاف ایک نیا اتحاد تشکیل دیں۔
تجزیہ نگار الیاس نے اسرائیلی ریاست کے اقدامات کے جواب میں عالمی قوانین پر کار بند رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم کو ایک ظالم، نسل پرست اور استعماری ریاست کا سامنا ہے۔ اس کے لیے فلسطینیوں کو تزویراتی، ٹکیٹیکل پالیسی اپنانے کے ساتھ مصالحت جیسے طریقے اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔