مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس کے مغربی قصبے ’قوصین‘ کو قدرتی حسن اور خوبصورتی کی بدولت سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے مگر صیہونی ریاست کی قائم کردہ غیرقانونی فیکٹریوں، کارخانوں اور کیمیائی مصنوعات تیار کرنے والے مراکز کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے قوصین کی قیمتی اور خوبصورت اراضی کو بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔
صیہونیوں کے اس مجرمانہ طرز عمل سے مقامی فلسطینی آبادی سخت نالاں ہے۔ کوڑے کے ڈھیر ، گندگی ، کیمیائی فضلے اور ماحول کو آلودہ کرنے والی دیگر ان گنت بے کار اشیاء کو ٹرکوں پر لاد کر قوصین میں پھینکا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پانی آلودہ ہونے کے ساتھ ساتھ فضائی اور زمینی آلودگی میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
فضائی اور آبی آلودگی کے مضر اثرات نہ صرف مقامی فلسطینی انسانی آبادی پر مرتب ہو رہے ہیں بلکہ اس گندگی کے نتیجے میں حیوانی اور نباتاتی حیات بھی سنگین خطرات کی زد میں ہے۔
قوصین کی دیہی کونسل کے چیئرمین عمر ابو نمرہ کا کہنا ہے کہ قوصین میں جگہ جگہ پھینکے گئے فضلے کے باعث ہر طرف بدبو پھیل چکی ہے۔ پانی کے ذخائر آلودہ ہیں اور اس کے نتیجے میں شہریوں میں وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔
ابو نمرہ نے کہا کہ صیہونی حکام اور صیہونی آباد کار آئے روز قوصین میں موجود قیمتی اور پھل دار درخت کاٹ کر ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کررہے ہیں۔ درختوں کی کٹائی، کیمیائی فضلے کی بھرمار اور کارخانوں بالخصوص المونیم اور اسٹون کے کارخانوں کے نتیجے میں پھیلنے والی آلودگی شہریوں میں بانجھ پن ، کینسر، ناک کے امراض اور سانس کی تکالیف جنم لے رہی ہیں۔
ابو نمرہ کا کہنا تھا کہ قوصین میں کینسر کےامراض کی شرح میں مسلسل اضافے کی بنیادی وجہ علاقے میں صییہونی حکام کی طرف سے پھیلائی گئی گندگی ہے جس کے نتیجے میں مقامی فلسطینی آبادی کو صحت کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں ابو نمرہ نے کہا کہ صیہونی حکام کی طرف سے قوصین میں پھینکے گئے فضلے کے نتیجے میں ایک بڑا مسئلہ آبی آلودگی کا بن رہا ہے۔ کیمیائی فضلے کے ڈھیر قصبے کے چھ ایکڑ رقبے پر پھینکے گئے ہین جس کے نتیجے میں زیرزمین پانی کے ذخائر آلودہ ہو رہے ہیں۔
مقامی سطح پر ماحولیات تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم کے رکن جمال الباز کا کہنا ہے کہ قوصین میں ماحولیاتی آلودگی کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ کیمیائی مواد سے خطرناک گیسیں پیدا کرنے والے مضر اثرات مقامی شہری آبادی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ کینسر اور سانس کی دشوار بیماریوں کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ماحولیاتی آلودگی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی بھی صہیونی ریاست کی طرف سے کیمیائی فضلے کی روک تھام میں لاپرواہی برت رہی ہے۔ مقامی شہریوں کے مسلسل احتجاج کے باوجودÂ فلسطینی اتھارٹی نے ان کے تحفظ کے لیے کوئی عمل قدم نہیں اٹھایا۔