مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی مرکز برائے مخطوطات کے ڈائریکٹراورسرکردہ فلسطینی تجزیہ نگارخلیل التفجکی نے کہا ہے کہ سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب ۔ اسرائیل جنگ کے بعد صہیونی ریاست نے ایک دن بھی صہیونی آباد کاری نہیں روکی۔
فلسطینی مخطوطات مرکز کے ڈائریکٹرنے ان خیالات کا اظہار ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ اسرائیل نے بیس سال کے بعد غرب اردن میں کوئی صہیونی کالونی قائم کرنے کی منظوری دی ہے۔ صہیونی ریاست نے عملا سنہ انیس سو ستاسٹھ کے بعد ایک روز کے لیے بھی صہیونی آباد کاری نہیں روکی۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غرب اردن اور بیت المقدس میں صہیونی آباد کاری کے بارے میں صہیونی ریاست پوری دنیا کو گمراہ کررہی ہے۔ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد صہیونی ریاست مسلسل غیرقانونی صہیونی آباد کاری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
خلیل تفکجی کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک سیریز کی شکل میں فلسطین میں صہیونی بستیاں تعمیر کررہا ہے۔ پہلے ’گیلو1‘ پھر ’گیلو2‘ اور اب ’گیلو3‘ صہیونی کالونی قائم کی گئی۔ ان کالونیوں کی منظوری بھی حالیہ برسوں میں دی گئی تھی جو اب بھی جاری ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست پیچیدہ انداز میں صہیونی کالونیوں کی منظوری دے رہا ہے۔ اسرائیل کا اپنا دعویٰ ہے کہ اگر وہ صہیونی کالونیوں کےاندر مکانات تعمیر نہیں کرے گا تو وہ کالونیوں کے باہر یا صہیونی فوجی کیمپوں کے اطراف میں آباد کاری کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ دیکھیں کہ اسرائیل فلسطین میں صہیونی کالونیوں کےدرمیان ربط کیسے قائم کررہا ہے۔ غزہ کے وسط میں قائم راس العین اور اطراف کی صہیونی کالونیوں کو گرین لائن کے اندر کفر قاسم کے علاقوں تک پھیلایا گیا ہے۔ وادی اردن کی صہیونی کالونیوں کو غرب اردن کے شمالی علاقوں میں قائم ’ارئیل بلاک‘ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ اسی طرح شیلو کو ترمسعیا اور جلود کے ساتھ جوڑا گیا۔ صہیونی آباد کاری کی اس شکل پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی شک نہیں رہتا کہ صہیونی ریاست غرب اردن Â کو شمالا جنوبا ایک دوسرے سے کاٹ رہا ہے۔
فلسطینی ریاست کا قیام روکنے کی سازش
انٹرویو میں ڈاکٹرخلیل التفکجی نے کہا کہ عرب شہروں میں صہیونی توسیع پسندی صہیونی دشمن کے ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے، جس کا اصل مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا ہے۔ فلسطینی علاقوں میں جغرافیائی اور آبادیاتی تبدیلیوں کی صہیونی سازش کے در پرد مذموم مقاصد میں بھی فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا ہے۔
اسرائیل اپنے تمام تر توسیع پسندانہ ہتھکنڈوں سے یہ ثابت کر رہا ہے کہ سرزمین فلسطین میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی وجود نہیں۔ ہرآنے والے دن فلسطینی ریاست کےقیام کو مزید مشکل اور پیچیدہ کیا جا رہا ہے۔ صہیونی کالونیاں اور فلسطینی علاقوں میں توسیع پسندی اصل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں خلیل تفکجی نے کہا کہ عالمی برادری کی طرف سے بھی صہیونی ریاست پرفلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنے کے خلاف کوئی خاطر خواہ دباؤ نہیں ڈالا جا رہا ہے۔ عرب ممالک بھی اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کا شکار رہے ہیں۔ عرب لیگ صہیونی ریاست پر دباؤ ڈالنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے جاری جدو جہد کو آگے بڑھانے میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکی ہے۔
عرب ممالک کے لیے پیغام
اسرائیلی حکومت نےغرب اردن کے شمالی شہرنابلس میں ایک نئی صہیونی کالونی کے لیے 977 دونم اراضی کی منظوری ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب اس کے ایک ہی روزقبل اردن کی میزبانی میں عرب سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔
صہیونی ریاست کی طرف سے غرب اردن میں مزید کالونی کے قیام کی منظوری عرب ممالک کے لیے بھی واضح پیغام ہے۔ وہ یہ کہ صہیونی ریاست عرب ممالک کے مطالبات کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ وہ غرب اردن ، بیت المقدس اور وادی اردن میں دھڑا دھڑ مکانات کالونیاں بسا کر نہ صرف عرب لیگ کے مطالبات کو نظرانداز کررہا ہے بلکہ اسے سلامتی کونسل کی قرارداد 2234 کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں خلیل تفکجی نے کہاکہ صہیونی ریاست نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے غرب اردن کے جس علاقے میں صہیونی کالونی کے قیام کی منظوری دی ہے وہ صہیونی مملکت کا حصہ ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ صہیونی ریاست فلسطینی شہروں میں غیرقانونی آباد کاری روکے گا۔اسرائیلی حکومتی گذشتہ کئی عشروں سے جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے سنہ 2020ء غرب اردن میں اپنی توسیع پسندانہ پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ جب کہ 2050ء کا القدس کے لیے اسرائیلی منصوبہ زیرتکمیل ہے۔ اس منصوبے کے تحت مغربی کنارے کے سیکٹر E1 میں ’معالیہ ادومیم‘ کالونی کو مکمل کرنا۔ بیت المقدس میں ایک نیا ہوائی اڈہ قائم کرنا اور دیگر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ’عظیم تر یروشلم‘ کے منصوبے کو مکمل کرنا ہے۔