فلسطین میں صہیونی ریاست کے جبرو تشدد کے خلاف جاری تحریک انتفاضہ کو کچلنے میں ناکام صہیونی ریاست عموماً اپنی ناکامی چھپانے کے لیے نسل پرستانہ نوعیت کے اداروں کا سہارا لینے اور پارلیمنٹ کے پیچھے سے چھپ کر وار کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
صہیونی ریاست میں قوانین سازی کے محرکات کا جائزہ لینے کے لیے ایک تازہ رپورٹ میں روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ اسرائیل میں کون کون سے ادارے اور شخصیات ایسی ہی جو پارلیمنٹ کے متوازی قانون سازی کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس ضمن میں مرکز نے ‘صہیونی تزویراتی انسٹیٹیوٹ’ عدلیہ اور صہیونی ریاست کے اصل قانون سازکے عنوان سے ایک رپورٹ میں روشنی ڈالی ہے۔
"انسٹیٹیوٹ کےاغراض و مقاصد”
تزویراتی صہیونی ادارے کی جانب سے عدالتی قانون سازی کا پہلا منصوبہ کنیسٹ کے آرٹیکل 16 اور 17 کی تیاری میں پیش کیا۔ ان دفعات کی تیاری میں انسیٹیٹیوٹ کے ماہرین نے براہ راست حصہ لیا۔ اس کے علاوہ کئی ایسے نئے قوانین جو ابھی تکمیل کے مراحل میں ہیں ابھی پارلیمنٹ میں بحث کے لیے پیش کیے جائیں گے‘تزویراتی صہیونی انسٹیٹیوٹ’ کی کارستانی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پولیٹیکل اسٹریٹیجک کلب جیسے ادارے کا اصل مقصد اسرائیل کو یہودی ریاست کے طورپر فروغ دینا۔ صہیونی ریاست میں جمہوری اقدار کے فروغ کے ساتھ ساتھ اسرائیل پر یہودیت کی چھاپ گہری کرنا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس ادارے کا ایک کلیدی مقصد فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے میں ریاست کے دیگر سرکاری بالخصوص قانون ساز اداروں کی معاونت کرنا ہے۔
اسٹریٹیجک ادارے کے دیگر اہداف و مقاصد میں مقبوضہ فلسطین کے شہروں الجلیل اور جزیرہ نمائے نقب کو صہیونی ریاست کی ملکیت قرار دینے کے لیے قانون سازی میں مدد کرنا ہے۔
پولیٹیکل اسٹریٹیجک انسٹیٹیوٹ کی جانب سے حال ہی میں صہیونی حکومت کو ایک تفصیلی رپورٹ فراہم کی گئی جس میں یورپی حکومتوں کی طرف سے اسرائیل میں سرگرم این جی اوز کو ملنے والی فنڈنگ کی تفصیلات بیان کی گئی تھیں۔
مذکورہ انسٹیٹیوٹ اب تک آبادی کے امور کے پیشہ ور ماہرین کی مدد سے آبادیاتی سائنس سے بارے میں رپورٹس تیار کر کے حکومت کو پیش کرچکا ہے۔ حال ہی میں تیار کی گئی ایک رپورٹ میں ڈاکٹر اسحاق رابید اور ڈاکٹر یعقوب فیلٹسون جیسے ماہرین نے بتایا کہ صہیونی ریاست کی آبادی اسرائیل کے نظام تعلیم پر کس طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ نیز حکومت کو تعلیمی شعبے کے لیے کس نوعیت کے قوانین وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
اس ادارے نے یوتھ لیڈر شپ کے لیے ایک نیا پروگرام متعارف کرایا جس میں نوجوانوں کو زندگی کے مختلف شعبوں میں رہ نمائی کے طریقہ کار پر بات کی گئی۔ اس پروگروم کے لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے 25 منتخب طلباء کو لیا گیا۔ ان طلباء کی مدد سے سیاسی اور جنرل ایڈمنسٹریشن کے نظام میں حکمت عملی پر بحث کی گئی۔
صہیونی تزویراتی انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ تجاویز میں قومی اہداف کے تعین، نوجوانوں کی نمائندہ تنظیموں، پیشہ وارنہ اور ٹینیکل تعلیم، اسرائیل میں غربت اور بے روزگاری کی شرح میں کمی لانے کی تجاویز پر مشتمل لٹریچر تیار کیا گیا۔
یہ ادارے فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری میں ملوث تنظیموں اور اداروں کے ساتھ بھی مسلسل رابطے میں ہے۔ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے یہودی کالونیوں میں تعلیم، ثقافت کے فروغ، مزید یہودیوں کی آباد کاری اور نئے آنے والے یہودیوں کو اسرائیل میں مختلف شعبوں میں ایڈجسٹ کرنے میں بھی رہ نمائی فراہم کی جاتی ہے۔
اسٹریٹیجک پولیٹیکل انسٹیٹیوٹ کی جانب سے اپنے اہداف میں یہودی مذہب اور اسرائیلی ریاست میں توازن کے قیام کی کوششیں بھی شامل کی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ادارے نے ‘اعتدال کی راہ’ کے عنوان سے ایک نیا شعبہ قائم کیا ہے جو مذہب اور ریاست کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے اور اعتدال کے قیام کے لیے سرگرم عمل ہے۔
ادارے کے بنیادی ستون:
"صہیونی اسٹریٹیجک انسٹیٹیوٹ” کا قیام سنہ 2005ء کے اوائل میں اسرائیل کے دو معروف قانون دانوں [جو کہ سابق فوجی افسران بھی ہیں] یووال گولو وینسکی اور اسرائیل ھرئیل نے مل کر رکھا۔ اسرائیل ھرئیل پیشے کے اعتبار سے قانون دان اور صحافی بھی ہے۔
گولو وینسکی اس ادارے کا سنہ 2005ء سے 2012ء تک پہلا چیئرمین رہا۔ وہ چھاتہ بردار فوج سے ریٹائر ہوا تو اسے فوراً ہی اسٹریٹیجک انسٹیٹیوٹ کےقیام کا ٹاسک مل گیا۔ گولو وینسکی نے ‘‘جنگ غفران’’ میں خود بھی حصہ لیا تھا۔ اس کا آبائی تعلق شمالی بیت المقدس میں واقع ‘‘بنجمن’’ نامی یہودی کالونی سے بتایا جاتا ہے۔ اس ادارے کا مالیاتی نظام بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ پر ہے اور اس کے 92 فی صد فنڈز بیرون ملک سے آتے ہیں۔
سنہ 2012ء کے بعد اس ادارے کی قیادت ڈاکٹر یوعاز ھند کے پاس ہے۔ ھندل ایک مورخ، ٹی وی ریڈیو اینکر اور مصنف ہے۔ مقبوضہ فلسطینی شہر بتاح تکفا اس کا آبائی علاقہ ہے۔ اس نے بھی اپنے پیشرو کی طرح فوج میں اعلیٰ عہدے پر خدمات انجام دیں۔ سنہ 1996ء میں لبنان میں عناقید نامی ایک خفیہ کارروائی اور سنہ 2008ء میں غزہ جنگ میں بھی حصہ لیا۔
یوعاز ھندل نے اسرائیلی ملٹری اور سول انٹیلی جنس کے حوالے سے کئی مستند دستاویزی رپورٹس شائع کیں۔ بار ایلان یونیورسٹی میں شعبہ دہشت گردی اور گوریلا جنگ کے شعبے کام کیا۔ اسرائیل کے عبرانی اخبارا "یدیعوت احرونوت” میں شایع ہونے عالی جاندار رپورٹس کے باعث اسے فوج اور اخبار کے درمیان مضبوط ستون قراردیا جاتا ہے۔
ادارے کے موجودہ سربراہ یووال گولووینسکی ،ایزیکٹو ڈائریکٹر میری شالم، میٹنگ آرگنائزنگ کمیٹی کے چیئر میں ڈاکٹر یوفال یوعاز، اسرائیل ھرئیل، ناتان شرانسکی، موشے یعلون اور گویل گلووینسی اس انسٹیٹیوٹ کے اساسی ارکان میں شامل ہیں۔
اسٹریٹیجک انسٹیٹیوٹ کےمدار المہام بعض عناصر کا تعارف
یووال گولو وینسکی:
اسرائیل میں عدلیہ اور پارلیمنٹ کے پس پردہ قانون سازی کے میدان میں صہیونی اسٹریٹیجک انسٹیٹیوٹ کے بانی ارکان میں ایک نام ’یووال گولو وینسکی‘ کا ہے۔ وینسکی امریکی نژاد ہے امریکی ریاست نیویارک میں پیدا ہوا اور نیوروشیل کے مقام پر پلا بڑھا۔ وہیں اپنے والد ’ڈیو گی گولو وینسکی‘ کے قائم کردہ ایک مذہبی اسکول ’وسچسٹر‘ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی سطح کی تعلیم مین ہٹن یونیورسٹی سے مکمل کی اور 20 سال تک نیویارک میں بہ طور وکیل کام کیا۔ سنہ 1987ء میں گولو وینسکی اپنی اہلیہ فیرا اور دو بیٹیوں یائیل اور میکال کے ہمراہ فلسطین میں آ کر آباد ہو گیا۔ امریکا میں قیام کے عرصے میں اسے نیویارک میں یہودی ایجوکیشنل کونسل کا وائس چیئرمین مقرر کیا گیا۔ لو ونسکی کا شمار یہودی ایجنسی کے سرکردہ یہودیوں میں ہوتا ہے۔
یوعاز ھندل:
یوعاز ھندل کی پیدائش مقبوضہ فلسطینی شہر بتاح تکاف کی ہے۔ اس نے سنہ 1993ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور فوج کی کمانڈو یونٹ 13 میں نیول کمانڈو کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس نے لبنان میں سنہ 2006ء اور غزہ کی سنہ 2008ء کی جنگوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ جامعہ بار ایلان سے تعلیم مکمل کرنے والے یوعاز ھند نے اسی یونیورسٹی میں دہشت گردی اور گوریلا کارروائیوں کے شعبے میں لیکچر بھی دیے اور سنہ 2012ء میں صہیونی حکومت نے اسے سرکاری مذاکراتی ٹیم کا رکن بھی مقرر کیا۔
یسرائیل ھرئیل:
یسرائیل ھرئیل جرمنی میں پیدا ہوا۔ اپنے خاندان کے ہمراہ فلسطین میں آ کر آباد ہو گیا ور فوج کے چھاتہ بردار بریگیڈ میں رضاکار کے طور پر بھرتی ہوگیا۔ سنہ 1980ء کی جنگ غفران کے موقع پر یسرائیل ھرئیل وہ پہلا اسرائیلی فوجی تھا جس نے مصر کی نہر سویز عبور کی۔ غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں ’یہودی سوشل کونسل‘ کے قیام میں بھی اہم کر ادا کیا اور وہ ادارے کا پہلا چیئرمین بھی مقرر ہوا اور سنہ 1995ء سے 2015ء تک اس میں خدمات انجام دیں۔ اسے یہودیوں کی فلاح بہبود کے صلے میں اسرائیل کا سرکاری اعزاز’موسکو ویٹچ‘ بھی دیا گیا۔
ناتان چارنسکی:
ناتان چارنسکی یوکرائنی نژاد ہے اور اس کی اپنی پیدائش کے یوکرائن کے شہر ڈونیسٹک کی ہے، تاہم اس کا خاندان فلسطین میں آباد کیا گیا۔ ناتان اسرائیل کی ایک سرکردہ اور جانی پہچانی شخصیت ہے۔ اس نے نائب وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیر برائے محنت و افرای قوت، صنعت، تجارت، آباد کاری اور القدس امور کی وزارت کے قلمدان بھی سنھبالے۔ اس وقت وہ یہودی ایجسنی کا چیئرمین ہے۔ صہیونیت کی بعض پالیسیوں پر تنقید کے باوجود ناتان چارنسکی اسرائیل کی طرف یہودیوں کی نقل مکانی کا پر زور حامی ہے۔
موشے یعلون:
موشے یعلون سابق وزیر دفاع اسٹریٹجیک امور کے سابق وزیر کے عہدے پر کام کر چکا ہے۔
بشکریہ: مرکز اطلاعات فلسطین