مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) دس فروری بہ روز ہفتہ شام میں حملہ کرنے والے ایک اسرائیلی جنگی طیارے’ایف 16‘ کو مار گرائے جانے کے بعد اسرائیلی ریاست کو یہ اندازہ پہلی بار ہوا ہے کہ شام کے محاذ پر اس کی کارروائیاں اب خاموشی سے نہیں ہوں گی اور اسرائیلی دشمن کو اسÂ بھرپور رد عمل دیکھنا پڑے گا۔
شام میں اسرائیلی جنگی طیارے کے مار گرائے جانے کے واقعے کے بعد اسرائیلی ذرائع ابلاگ میں اس حوالے سے تجزیے اور تبصرے جاری ہیں۔ اسرائیلی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹس میں شمالی محاذ سے نمٹنے کے اسرائیلی ویژن اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بات چیت کی جا رہی ہے۔یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا اسرائیل ایک نئی جنگ کی تیاری کررہا ہے۔ اسرائیل کو کس چیز کاخوف لاحق ہے۔ کیا اسرائیلی ریاست جنگ سے بچنے کی حکمت عملی اپنائے گی؟۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شام میں اسرائیلی فوج کے لیے بھرپور جنگ کا امکان بہت کم ہے۔ اگر شام میں صرف ایران کی موجودگی کا اسرائیلی دعویٰ ہوتا تب بھی جنگ کا امکان تھا مگر شام کے محاذ پر روس سمیت کئی قوتیں موجود ہیں۔ موجودہ کشیدگی کم کرنے کے لیےاسرائیل روس کے ساتھ سفارت کاری کے میدان کو ترجیح دے گا۔
عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ میں ’آئینی جنگ شروع ہونے سے قبل‘ کے عنوان سے لکھے گئےایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگرحالیہ ایام کے دوران بالخصوص شام میں طیارہ مار گرائے جانے کے بعد اسرائیلی قیادت کے دھمکی آمیز اورغصے سے بھرپور بیانات کو دیکھا جائے توایسے لگتا ہے کہ اسرائیلی ریاست کسی بھی وقت شام پر ایک بڑا حملہ کرسکتی ہے۔
تاہم اس طرح کے بیانات عالمی رائے عامہ کا موڈ دیکھنے اور رحجان کا جائزہ لینے کا بھی ایک حربہ ہوتی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے جس طرح کا انداز بیان اپنایا جا رہا ہے اس کا مقصد ایک طرف لبنان اور شام میں ایران کے بڑھتے اثرو رسوخ کا خوف پیدا کرنا اور دوسری جانب شام میں فوجی کارروائی کے لیے عالمی سطح پرحمایت کے حصول کی کوشش ہے۔
اسرائیلی سیاسی اور ابلاغی حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ شام اور لبنان میں ایران کا اثرو رسوخ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اگر تہران کو عرب ملکوں میں پیچھے نہ ہٹایا گیا تو وہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی ریاست کے وجود کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
عالمی برادری پر دباؤ ڈالنے کی صلاحیت
اسرائیل عالمی رائے عامہ کو لبنان پر دباؤ ڈالنے کے لیے بھی کوشاں ہے۔ شام اور لبنان میں مبینہ ایرانی فوجی اڈوںÂ اور دیگر عسکری ودفاعی سرگرمیوں کو ختم کرانے کے لیے ان ملکوں پر دباؤ ڈالنا ہے۔
اسرائیلی اخبار نے استفسارکیا ہے کہ اگر ایران کو روکنے کا سفارتی موقع ہاتھ سے نکل گیا تو کیا اس کے بعد اسرائیل کے پاس جنگ کے سوا اور کوئی چارہ کار باقی نہیں بچے گا۔
اسرائیلی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت قومی رائے عامہ کو شام کے خلاف عسکری کارروائی کی حمایت پر تیار کرسکتا ہے مگرعالمی رائے عامہ کو ہموار کرنا اتنا آسان نہیں۔ تاہم اسرائیلی رائے عامہ کوہموار کرنے کے لیے اسرائیلی حکومت کو عوام کو بتانا ہوگا کہ جنگ کے نتیجے میں کتنا جانی اور مالی نقصان کا اندیشہ ہے۔ بنیادی ڈھانچہ کتنا متاثر ہوگا اور اسرائیلی ریاست کو اس جنگ کی کتنی معاشی قیمت چکانا پڑے گی۔
اسرائیلی عوام میں یہ تاثر قوی طورپر موجود ہے کہ اسرائیلی ریاست جس خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہا ہے وہ کافی حد تک مشکوک ہے۔
ذمہ داری ڈالنے کی حکمت عملی
اسرائیلی وزیر تعلیم اور سخت گیر اسرائیلی لیڈر نفتالی بینٹ نے شمالی محاذ سے نمٹنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ شمالی محاذ سے اسرائیلی سلامتی اور خود مختاری کو خطرات لاحق ہیں۔ ہمیں شمالی محاذ کے خطرے سے نمٹنے کے لیے ذمہ داری ڈالنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں حماس کے حوالے سے بھی ہمیں کشیدگی کی ذمہ داری فریق ثانی پر ڈالنے کی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ اسی طرح شام میں ممکنہ کشیدگی کا ذمہ دار ایران ہوگا۔ اگر اسرائیل کو شمالی محاذ پر جنگ کی راہ اپنانا پڑتی ہے تو اسرائیل کی تاریخ کا سب سے بڑا معرکہ ہوگا جس میں اسرائیل کو بھی غیرمعمولی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
عبرامی ٹی وی 13 فوج وسیع پیمانے پر انجینیرنگ آپریشن کی تیاری کررہی ہے۔ اس کا مقصد لبنان کی سرحد پر ٹوپو گرافی کو تبدیل کرنا ہے تاکہ کوئی بھی بری فوج اگر اسرائیل کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے تو اسے روکا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے اسرائیلی حکام نے زمین سے 20 میٹر تک بلند خفیہ کیمرے لگائے جا رہے ہیں۔ ان کیمروں کے قریب سے کسی بھی پیادہ فوج کا سرحد پار کرنا بہت مشکل ہوگا۔
اسرائیلی وزیر برائے ہاؤسنگ اور کابینہ کے رکن یوآف گیلنٹ نے کہا کہ ایران کے ساتھ کیا گیا جوہری معاہدہ ختم کرنے کے لیے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرنا ہوگی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر امریکا اور ایران کے درمیان کوئی جنگ چھڑتی ہے تو ایران لبنانی حزب اللہ کو اسرائیل کے خلاف استعمال کرے گا۔