آیۃ الشمعہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین میں سنہ 1948ء کو ایک غاصب صہیونی ریاست کے قیام کے ساتھ فلسطینی قوم پران کی زمین تنگ ہونے کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ صہیونی مسلح جتھوں نے جس بے رحمی کے ساتھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور شہروں سے نکالا تاریخ میں اس ستم گری کی مثال نہیں ملتی۔
سنہ 1948ء اور اس کے بعد فلسطینیوں پر مسلط کی گئی صہیونی جنگجوں کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی دوسرے ممالک ہجرت پر مجبور ہوئے۔ سب سے بڑا بوجھ توپڑوس کے عرب ممالک نے اٹھایا مگر خود عرب ملکوں میں پائی جانے والی بے چینی نے فلسطینیوں کو متبادل محفوظ مسکن کی تلاش پر مجبور کیا۔ چنانچہ فلسطینی پناہ گزینوں نے یورپی ممالک کا رخ کیا۔ دوسرے یورپی ملکوں کی نسبت سویڈن فلسطینیوں کا متبادل مسکن ثابت ہوا جہاں آج بھی فلسطینیوں کی ایک خاطر خواہ تعداد آباد ہے۔سویڈن میں فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد
سویڈن میں آباد ہونے والے فلسطینی پناہ گزینوں میں زیادہ لبنان، اردن، شام اور دوسرے ملکوں میں قائم کیمپوں سے وہاں پہنچے۔ ایک اندازے کے مطابق سویڈن 12 ہزار فلسطینی پناہ گزینون کی میزبانی کررہا ہے۔ سب سے زیادہ 3000 فلسطینی پناہ گزین سویڈن کے ’اوب سالا‘ شہر میں آباد ہیں۔ مالمو میں 2350، اسٹاک ہوم میں 2500، جوتنبرگ میں 1300، سورتالیہ میں 200, فکشو میں150 اور دیگر متفرق مقامات میں 2500 فلسطینی پناہ گزین آباد ہیں۔
سویڈن میں فلسطینیوں کی آمد کے اسباب
یورپی ممالک بالخصوص سویڈن میں فلسطینیوں کی آمد سیاسی،اقتصادی تعلیمی اور مذہبی اسباب بتائے جاتے ہیں۔
سیاسی اسباب
ارض فلسطین سے فلسطینیوں کی ھجرت کے بنیادی اسباب میں سیاسی اسباب بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ سنہ 1897ء میں صہیونی تحریک نے ایک ’بغیر زمین کے قوم اور بغیر قوم زمین‘ کا نعرہ لگایا۔ یہ ایک سیاسی نعرہ تھا جس کا مطلب ارض فلسطین سے فلسطینی قوم کے تعلق کا انکار اور دنیا بھر میں پھیلے یہودیوں کے لیے فلسطین کو وطن قرار دیا گیا۔ اسی بنیادی سبب کے تحت فلسطینی سویڈن اور دوسرے ملکوں کو نقل مکانی پر مجبور کیے گئے۔ سیکڑوں فلسطینیوں کی سویڈن میں قیام کی درخواستیں مسترد کی گئیں اس کے باوجود فلسطینیوں کی بڑی تعداد سویڈن میں عارضی طور پرآباد ہونے میں کامیاب ہوگئی۔
معاشی اسباب
فلسطینیوں کی سویڈن کی طرف نقل مکانی کا دوسرا سبب غربت اور بے روزگاری تھی۔ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی’اونروا‘ پناہ گزینوں کو خاطرخواہ معاشی سہولیات کی فراہمی میں ناکام رہا۔ فلسطینی پناہ گزین خاندان برسوں پہلے اور آج بھی معاشی بحرانوں کا سامنا کررہے ہیں۔ عرب ممالک میں برپا ہونے والی تحریکوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کی معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب کئے۔
چنانچہ مالی وسائل کے باعث فلسطینی پناہ گزین سویڈن اور دوسرے ملکوں کو ھجرت پرمجبور ہوئے۔ بعض فلسطینی سویڈن کی عرب ممالک میں قائم کمپنیوں سے وابستگی کی بناء پر سویڈن پہنچے اور وہیں کے ہو رہے۔
تعلیمی اسباب
فلسطینی پناہ گزینوں کی سویڈن کی طرف نقل مکانی کے اسباب میں ایک تعلیمی سبب بھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ریلیف ادارے’اونروا‘ کے تعلیمی اداروں نے یورپی ممالک کے تعلیمی اداروں کے ساتھ معاہدے کیے۔ ان میں لبنان میں قائم سپلین انسٹیٹیوٹ اور شام میں’الفی ٹی سی‘ نامی اداروں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے طلباء کو جرمنی، ڈنمارک اور سویڈن بھیجا۔ یورپی ملکوں سے سیکڑوں فلسطینی طلباء نے تعلیم حاصل کی، ان میں 30 فلسطینی طلباء آج بھی سویڈن ہی میں مقیم ہیں۔
مذہبی اسباب
انیسوی صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں فلسطین، لبنان اور شام میں مذہبی بنیادوں پر بھی پناہ گزینوں کو شمالی اور جنوبی امریکا اور یورپی ملکوں میں بھیجا گیا۔ یوں صدیوں پہلے مذہبی مقاصد کے لیے یورپی ملکوں میں آنے والے فلسطینی آج وہاں کے مستقل باشندوں کی حیثیت سے رہتے ہیں۔
فلسطین سے Â سویڈن ھجرت کرنے والے بعض خاندان بیسویں صدی کے دوران سویڈن میں آباد ہوئے جو آب بھی وہاں پر ہیں۔
سویڈن میں فلسطینیوں کی تعداد میں اضافہ
دیگر یورپی ملکوں کی نسبت سویڈن فلسطینی پناہ گزینوں کی توجہ کا زیادہ مرکز بنا۔ 20 ویں صد کے60ء کے عشرے میں کچھ فلسطینی طلباء غرب اردن، غزہ کی پٹی، اردن اور شام سے تعلیم کے حصول کے لیے سویڈن کے اداروں میں پہنچے۔ ان فلسطینی طلباء کی تعلیمی معاونت میں ’اونروا‘ نے اہم کردار ادا کیا۔ سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد فلسطینیوں کی کم تعداد سویڈن سے واپس ہوئی۔ انفرادی طور پر سویڈن آنے والے فلسطینیوں نے مقامی حکومت کے تعاون سے اپنے خاندان بھی وہیں بلوا لیے۔ یا انہوں نے سویڈش خواتین سے شادی کرکے وہیں سکونت اختیار کرلی۔
سنہ 1990ء Â کے عشرے میں فلسطینی پناہ گزینوں کی مزید بڑی تعداد سویڈن جانے پر مجبور ہوئی۔ عرب ممالک اور فلسطین میں سامنے آنے والی بے چینی کے نتیجے میں غرب اردن، غزہ پٹی، لبنان، اردن اور شام سے فلسطینی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد سویڈن پہنچنے لگی۔ سنہ 1982ء لبنان اسرائیل جنگ اور 1990ء دوسری خلیج جنگ کے نیتجے میں بھی فلسطینی پناہ گزین سویڈن کی طرف نقل مکانی پرمجبور ہوئے جس کے نتیجے میں سویڈن میں فلسطینیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
سویڈش شہر جہاں فلسطینی آباد ہیں
سویڈن میں قیام پذیر ہزاروں فلسطینی اسٹاک ہوم۔ اوبسالا، مالمو، گوٹنبوگ ، سودرتالیہ، فاکسیو، یافلی، ھلسنبور اور ولانڈسکرون میں رہتے ہیں۔
فلسطینی سویڈن سماج کا حصہ
سویڈن میں پناہ لینے والے فلسطینیوں کو ماضی کی نسبت حالیہ کچھ عرسے میں مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے سویڈش سماج کا حصہ بننےمیں مشکلات درپیش آ رہی ہیں۔ عادات، روایات، زبان، بے رزگاری میں اضافہ اور دیگر مسائل فلسطینیوں کو سویڈش معاشرے کا حصہ بننے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
اگرچہ سویڈن کے بعض ادارے اور تنظیمیں سویڈن زبان کے مفت کورسز کرانے میں معاونت کرتی ہیں مگر اس کے باوجود عملی زندگی میں وہاں پر فلسطینیوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔
ان تمام مشکلات کے باوجود فلسطینی شہری سویڈن کے تعلیمی اداروں سےاستفادہ کرتے ہیں۔ ان اسکولوں میں پناہ گزینوں کے بچے سویڈش زبان بھی سیکھ رہے ہیں اور اس طرح وہ آہستہ آہستہ سویڈن سماج کا حصہ بن رہے ہیں۔
سویڈن میں فلسطینی ادارے
سویڈن میں فلسطینی پناہ گزینوں کی نمائندگی اور ان کے حقوق کے لیے مساعی کرنے والے کئی گروپ سرگرم ہیں۔ ان میں ’حق واپسی الائنس‘، اوبسالا فلسطین آرگنائزیشن، عرب کلچرل کلب، اوبسالا القدس کلب، یافلی میں فلسطین۔ سویڈن فریںڈشپ آرگنائزیشن، سویڈرالیہ لیگ، الجمعیہ الفلسطینیہ،، گوتنبرگ میں ’پیس کلب‘ مالمو میں فلسطینی رابطہ گروپ، ھلنسبور میں عرب کلب اور گوتنبرگ میں مرکز العدالہ نامی تنظیمیں شامل ہیں۔ سویڈن میں مقیم تمام فلسطین ان تنظیموں سے وابستہ ہیں۔
سویڈن میں فلسطینی سفارتی مشن
اقوام متحدہ کی طرف سے تنظیم آزادی فلسطین کو قانونی طور پر فلسطین کا نمائندہ ادارہ تعلیم کیے جانے کے بعد سویڈن نے بھی فلسطینی اتھارٹی کو تسلیم کیا۔ آغاز میں اسٹاک ہوم میں تنظیم آزادی فلسطین کا ایک میڈیا دفتر کھولا گیا تھا۔
اس رابطہ ابلاغی دفتر نے فلسطین طلباء الائنس، فلسطین لیبر الائنس اور اوسلو معاہدے کے بعد فلسطینی سفارت کاری کے لیے ہائی کمیشن کی بنیاد رکھی۔
نقل مکانی روکنے کے فیصلوں کے اثرات
شام اور دوسرے عرب ملکوں سے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کے یورپ کا رخ کرنے سے سویڈن پر بھی پناہ گزینوں کا بوجھ بڑھا۔ چنانچہ سویڈش حکومت نے بھی پناہ گزینوں کی تعداد کم کرنے کے فیصلوں کا اعلان کیا ہے۔
سویڈن کی حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر ایک معاہدہ کیا جس کے تحت دوسرے ملکوں سے آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد مختص کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آئندہ پناہ گزینوں کو زیادہ سے زیادہ تین سال تک قیام کے اجازت نامے جاری کیے جائیں گے نا کہ مستقل بنیادوں پر انہیں رہنے کا حق ہوگا۔
ان فیصلوں کا اثر فلسطینی پناہ گزینوں پر بھی پڑا ہے۔ تاہم ان فیصلوں اور پابندیوں کا اطلاق ان بچوں پر نہیں ہوگا جو اپنے اقارب کے بغیر تن تنہا سویڈن پہنچیں گے۔
سویڈن کی تمام بلدیاتی حکومتوں کو بھی آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد کا ڈیٹا جمع کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، ایمی گریشن حکام کو کسی بھی پناہ گزین کی پناہ کی درخواست مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
سویڈن ایمی گریشن کے مطابق تین سال کے عارضی قیام کے بعد اگر کوئی پناہ گزین ٹیکسوں کی ادائیگی اور دیگر شرائط پر پورا اترنے کی یقین دہانی کرائے گا یا وہ ثابت کرے گا کہ اس کے پاس سویڈن میں معقول روزگارہے تو اسے دائمی قیام کی اجازت دے دی جائے گی۔