غرب اردن – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں سنہ1994ء کے معاہدہ اوسلو کے بعد قائم نام نہاد فلسطینی اتھارٹی کے بے اختیار ہونے کے دیگر شواہد میں ایک بڑا اور واضح ثبوت اسرائیل کی وہ ’سول انتظامیہ‘ ہے جو بھرپور ریاستی وسائل اور سیاسی اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے غرب اردن میں متوازی حکومت چلا رہی ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ ’سول انتظامیہ‘ صہیونی ریاست نے فلسطینی اتھارٹی کو دباؤ میں لانے کے لیے Â تشکیل دے رکھی ہے۔ نام نہاد سیکیورٹی تعاون کی آڑ میں فلسطینی اتھارٹی کی پولیس اسرائیلی فوج کی معاون اور سہولت کا کردار ادا کررہی ہے۔ اس کے باوجود غرب اردن میں سول انتظامیہ کے اختیارات سے فلسطینی اتھارٹی محروم ہے۔اسرائیلی فوج کے زیرانتظام ’سول انتظامیہ‘ نامی ایک ادارے کو بھی فلسطینی اتھارٹی کے پاؤں تلے سے بساط کھیچنے اور رام اللہ اتھارٹی کو بلیک میلنگ کے لیے ایک حربے اور لاٹھی کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ تاکہ فلسطینی اتھارٹی کے زیرکنٹرول بقیہ فلسطینی علاقوں پربھی صہیونی ریاست کا مکمل تسلط قائم کیا جاسکے۔
غرب اردن کے علاقوں میں فوج کی معاونت کار ’سول ایڈمنسٹریشن‘ نامی شعبے کے قیام کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ عرب شہروں میں جہاں کہیں اراضی کا کوئی مسئلہ بنے، فلسطینیوں کے مکانات کی تعمیر یا معاملہ ہو یا ایسا کوئی بھی مسئلہ جو دونوں طرف کی انتظامیہ کے لیے اہمیت کا حامل ہو اسے مل کراتفاق رائے سے حل کرنا تھا مگر عملا یہ ادارہ صہیونی فوج کےہاتھ میں فلسطینی اتھارٹی کو بلیک میل کرنے اور اسے دباؤ میں رکھنے کا منظم حربہ ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی مجرمانہ غفلت اور ’دوستانہ خاموشی‘ کے باعث صہیونی سول ایڈمنسٹریشن زیادہ فلسطینیوں کے سروں پر سوار ہوگیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب اس نام نہاد ادارے کی طرف سے فلسطینیوں کی املاک پرغاصبانہ قبضے، مکانات مسماری ، فلسطینیوں کے مکانات کی تعمیر پرپابندی اور صہیونی آباد کاروں کے لیے توسیع پسندی کی سہولت کا کوئی نا کوئی اقدام نہ کیا جاتا ہو۔
حال ہی میں دو فلسطینی شہریوں ابو عبداللہ اور ابو اسعد نے بتایا کہ انہیں غرب اردن میں اپنی زمینوں میں کاشت کاری کے دوران اسرائیلی سول انتظامیہ کے عہدیداروں سے پالا پڑا۔ صہیونی حکام نے عبداللہ اور ابو سعد کو اپنی خدمات کی پیش کش کی۔ ابو عبداللہ نے کسی قسم کا تعاون لینے سے صاف انکار کردیا۔
ابو اسعد کا کہنا ہے وہ اپنی زمین میں کاشت کاری کررہا تھا۔ اس دوران اس کے پاس اسرائیلی انتظامیہ کا ایک عہدیدارآیا۔ اس نے کہا کہ اگرآپ چاہیں تو اپنی زمین کی چار دیواری کے لیے ہم آپ کو سیمٹ اور تعمیراتی سامان فراہم کرسکتے ہیں۔ اس نے اس سیمٹ کا بتایا جسے فلسطینیوں کے غرب اردن میں استعمال کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ابو اسعد نے اس اسرائیلی سے استفسار کیا کہ وہ فلاں سیمنٹ تو غرب اردن میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ تو اسرائیلی نے جواب دیا کہ آپ مجھے ایک درخواست دیں میں آپ کو وہ سب کچھ جو فلسطینیوں کو اپنے طورپراستعمال کرنے کی اجازت نہیں آپ کو دلوا دوں گا۔
فلسطینی اتھارٹی کی بلیک میلنگ
جامعہ بیرزیت سے وابستہ سیاسیات کے استاد جہاد حرب کہتے ہیں کہ اگر غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی انتظامیہ ختم ہوجاتی ہے تو اس صورت میں ’سول ایڈمنسٹریشن‘ اس کا متبادل ادارہ ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل Â اس ادارے کے ذریعے فلسطینی اتھارٹی کو بھی بلیک میل کررہا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی صہیونی ریاست سے تعاون نہیں کرے گی تو اسرائیل متبادل کے طور پر سول ایڈمنسٹریشن کو اختیارات سونپ کر فلسطینی اتھارٹی کو چلتا کرسکتا ہے۔
جہاد حرب نے کہا کہ ’سول ایڈمنسٹریشن‘ ایک متوازی حکومت ہے جو فلسطینیوں کے شناختی کارڈ جاری کرتی، میڈیکل الاؤنس جاری کرتی ہے حالانکہ یہ کام فلسطینی اتھارٹی کا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اسرائیل ایک منظم پالیسی اور طے شدہ حکمت عملی کے تحت غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کی ذمہ داریوں کو کم سے کم کررہا ہے۔ صہیونیوں کے نزدیک فلسطینی اتھارٹی کا سقوط خارج از امکان نہیں۔ اس لیے متبادل کے طور پر سول ایڈمنسٹریشن کو تیار کیا جا رہا ہے۔
متوازی حکومت
جامعہ النجاح سے وابستہ سیاسیات کےپروفیسر عثمان عثمان بھی جہاد حرب کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو بہت سی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا ہے اور فلسطینی انتظامیہ سے ذمہ داریاں اسرائیل کی سول انتظامیہ کو سپرد کی گئی ہیں۔ اسرائیل کی یہ پالیسی فلسطینی اتھارٹی کو بلیک میل کرنے اور اسے دباؤ میں رکھنے کا حربہ ہے۔ صہیونی ریاست کی پالیسی کے تحت فلسطینی شہریوں میں رام اللہ اتھارٹی کے حوالے سے بداعتمادی پپدا کرنا ہے تاکہ فلسطینی شہری مسائل کے حل کے لیے فلسطینی اتھارٹی کے بائے اسرائیل کے قائم کردہ سول ایڈمنسٹریشن سے رجوع پر مجبور ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں عثمان عثمان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی ریاست کےہاتھ میں سول ایڈمنسٹریشن ایک لاٹھی ہے جس کی مدد سے وہ فلسطینی اتھارٹی کو بلیک میل کررہی ہے۔
اسی سیاق میں تحریک فتح کی انقلابی کونسل کے سیکرٹری ماجد الفتیانی کا کہنا ہے کہ انہیں صہیونی ریاست کی پالیسی کا بہ خوبی علم ہے۔ اسرائیل ایک سازش کے تحت فلسطینی اتھارٹی کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ فلسطینی شہریوں پر آئے روز نئی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور صرف سول ایڈمنسٹریشن کی کھڑکی کھلی رکھی گئی ہے تاکہ فلسطینی شہری مسائل کے حل کے لیے صہیونی انتظامیہ سے رجوع پرمجبور ہوجائیں۔
الفتیانی کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی رابطہ کار یوآف مرد خائے خود کو غرب اردن کا گورنر سمجھتے ہیں۔
تجزیہ نگار محمد ابو علان نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں سے رابطے کے لیے جو نام نہاد ویب سائیٹ بنائی ہے اس کے پیچھے بھی صہیونیوں کا ایک خاص مقصد کار فرما ہے۔ اسرائیل عرب شہریوں اور نوجوان فلسطینی نسل کے سامنے اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی رابطہ کار فلسطینیوں سے راہ و رسم بڑھا کر ان کے ساتھ اسرائیل کا چہرہ خوش نما بنا کر پیش کرتا ہے اور فلسطینی مزاحمت کے خلاف اکساتا ہے۔
غرب اردن کے فلسطینیوں کو دوسرے شہروں کام کاج کے اجازت نامے جاری کرنے کا لالچ دے کر انہیں اپنے بہکاوے میں لایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ فلسطینیوں کے دلوں میں رام اللہ اتھارٹی کی اہمیت کم کی جاتی ہے۔