غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کا علاقہ غزہ ایک طرف صیہونی ریاست کی معاشی پابندیوں کا شکارہے تو دوسری طرف فلسطینیی اتھارٹی نے بھی غزہ کے بے حال و بے بس عوام کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کی ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کی مجرمانہ انتقامی پالیسی کے نتیجے میں غزہ کے شیر خوار بھی محفوظ نہیں رہے۔ اس کی تازہ مثال 6 ماہ کا ایک انوکھی بیماری کا شکار خضر احمد الشقرۃ کی دی جاسکتی ہے۔خضراحمد الشقرہ کی زندگی بچائی جاسکتی ہے اور اس کی زندگی کی قیمت GALACTOMIN 19 FORMULAÂ دودھ کے ایک ڈبے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر بچےکو یہ دودھ نہیں ملتا تو اس کی زندگی خطرے سے دوچار ہوسکتی ہے۔ الشقرہ کا جگر اور تلی مسلسل پھول رہے ہیں، بخار میں اضافہ اور دست اس کی موت کا موجب بن سکتے ہیں۔
الشقرہ کی مصیبت بھری داستان کا آغاز کئی قبل اس وقت ہوا جب اس کی پیدائش کو چند ہی دن ہوئے تھے۔ الشقرہ کا وزن مسلسل کم اور بچے کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔ بیماری کی شدت کے تناظر میں اسے المقاصد اسپتال منتقل کردیا گیا۔
الشقرہ کی والدہ 25 سالہ سامیہ الشقرہ گذشتہ برس دسمبر میں بچے کو لے کرخان یونس میں مبارک اسپتال گئیں۔ اسپتال منتقلی کی ایک وجہ بچے کو پینے کے لیے فراہم کردہ دودھ کی قلت تھی۔ فلسطینی اتھارٹی نے غزہ کی پٹی کو بچوں کے دودھ کی سپلائی بند کردی۔
خضر الشقرہ اس انوکھی بیماری کا اکلوتا شکار نہیں بلکہ غزہ کی پٹی میں بچوں کو دودھ کی قلت کے باعث دسیوں اور بچے بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں۔
ادھر دوسری جانب غرب اردن میں فلسطینی اتھارٹی کی وزارت صحت کے گودام بچوں کے دودھ کے اسٹاک سے بھرے ہوئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دودھ کی ایک بڑی مقدار زائد المیعاد ہوچکی ہے مگر اس کے باوجود غزہ کے بچوں کو دودھ کی سپلائی نہیں کی گئی۔
خضر الشقرہ کی بیماری اور اسے دودھ کی عدم فراہمی کی خبر مقامی ذرائع ابلاغ میں بھی شائع ہوئی اور اس کے اہل خانہ کی طرف سے مدد کی فریاد بھی غیر مؤثر رہی۔ ادھر دوسری طرف رام اللہ میں فلسطینی اتھارٹی کے مراکزمیں مذکورہ دودھ کیÂ وافر مقدار موجود ہے۔غزہ کی پٹی میں یہ دودھ سرے سے دستیاب نہیں جب کہ غرب اردن میں اس دودھ کے ایک ڈبے کی قیمت 100 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔
انوکھا مرض اور فلسطینی اتھارٹی کا انتقام
خضر کی پیدائش کے بعد اس کی ماں نے دیگر چاروں بچوں سات سالہ محمد، چھ سالہ حیات، چار سالہ کاملہ اور تین سالہ عاطف کو ان کی دادی کے ہاں چھوڑا اور خود خضر کی دیکھ بحال میں مصروف عمل ہوگئی۔
پہلے تو خضرکو خان یونس کے مبارک اسپتال میں داخل کیا گیا۔ یہاں سے سامیہ غم اور دکھ کے ایک سمندر میں غرق ہوگئی۔ اس کی اقارب خواتین جو انہیں تین ماہ تک تسلی دیتی رہیں اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں تھا۔
بچے کو لاحق مرض کے پیش نظر ہر تین گھنٹے بعد اس کے خون کا ٹیسٹ کیا جاتا۔ اس کے خون میں ایسڈ کی مقدار بڑھتی جاتی، تلی اور جگر پھولتے جا رہے تھے۔
سامیہ کا کہنا ہے کہ خضر پیدائش ہی سے دست کا شکار تھا۔ پیدائش کے پہلے ہفتے اس کا وزن چار کلو گرام سے کم ہو کر دو کلو گرام رہ گیا۔ ہم نے بچے کو غزہ میں دستیاب دودھ کی تمام اقسام کا تجربہ کیا مگر اس کا بخار اور دست بڑھتے تھے۔
خضر کی پیدائش کے چالیس ماہ کے بعد 40Â دنوں کے بعد اس کا وزن ڈیڑھ کلو گرام تک رہ گیا۔ وہاں سے اسے بیت المقدس کے المقاصد اسپتال منتقل کردیا گیا۔ ڈاکٹروں نے ایک انوکھے مرض کی نشاندہی کے بعد خصوصی اور مہنگا دودھ تجویز کیا۔ غزہ کی پٹی میں یہ دودھ دستیاب نہیں جب کہ بچے کے لیے ایک دن میں تین ڈبے درکار ہیں۔ غزہ کی ایک ڈسپنسری نے دودھ کاایک ڈبہ منگوانے کا وعدہ کیا مگر اس کی قیمت 500 شیکل بتائی گئی جب کہ یہ دودھ غرب اردن میں فلسطینی وزارت صحت کے مراکز میں وافر مقدار میں موجود ہے۔
زندگی اور موت کے درمیان
سامیہ اور اس کے شوہر دونوں غزہ کی پٹی میں اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کے چکر لگا لگا کر تھک گئے تھے مگر کہیں سے بھی انہیں یہ دودھ نہیں مل رہا تھا۔ ذرائع ابلاغ میں خبر چھپنے کے باوجود فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست میں کوئی کمی نہیں آئی۔
خضر کو دودھ کا آخری ڈبہ گذشتہ برس دسمبر میں مل سکا۔ اس کے بعد غزہ کی پٹی میں صحت کا بحران پیدا ہوا اور فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کی پٹی کو ادویہ کی ترسیل ہی بند کردی۔ یوں سامیہ اور اس کا شوہر دونوں بچے کی خاطر اسپتال کے وارڈ کے اسیر ہو کر گئے۔
خضر الشقرہ اس وقت خون کے ایسڈ، دست، قے، بخار، جگر کے پھولنے کے باعث شدت تکلیف سے دن رات روتا رہتا ہے۔
بچے کی دادی عائشہ زعرب نے کہا کہ رام اللہ وزارت صحت نے اس کے پوتے کو دودھ کی فراہمی روک دی۔ فلسطینی اتھارٹی کے نزدیک اس کے بچے کی قیمت دودھ کے ایک ڈبے کے برابر بھی نہیں۔ بار بار کی اپیلوں کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ فلسطینی اتھارٹی کے مراکز صحت میں دودھ کی وافر مقدار ہونے کے باوجود غزہ کے بچے بھوک سے مررہے ہیں۔